احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
ازاوّل تا آخر تحمید وتسبیح، تقدیس وتہلیل، توحید اور تمجید الٰہی سے بھرا ہوا ہے۔ ’’لا الہ الا اﷲ۰ سبحان اﷲ، یسبح ﷲ ما فی السمٰوٰت والارض۰ یسبح الرعد بحمدہ الحمدﷲ رب السمٰوٰت والارض‘‘ وغیرہ اپنی نسبت اسی قدر بیان ہے۔ ’’انما انا بشر مثلکم ویوحیٰ الیّ ما محمد الا رسول محمد عبدہ ورسولہ‘‘ جابجا ایمانی اور اخلاقی اصلاحوں کی تعلیم ہے اور مدار نجات آپ ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے۔ ’’من قال لا الہ الا اﷲ فدخل الجنۃ‘‘ کل مخلوق کی نیکیوں کو نظر انصاف سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ حاتم طائی کی بیٹی جو قیدیوں کے ساتھ آئی اور نوشیروان عادل کی آپ نے تعریف کی اور عام طور پر فرمایا: ’’خیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الاسلام‘‘ مگر آپ کے اندر جو اپنی مسیحیت کا خیال ہر وقت جوش زن ہے۔ خلق خدا سے مطلق ہمدردی نہیں۔ خداوند عالم کی عظمت آپ کے اندر بہت کم ہے۔ اس لئے آپ کے الہامات اسی رنگ کے ہوتے ہیں۔ ’’واﷲ یحمدک من السماء‘‘ اﷲ تیری آسمانوں میں حمدکرتا ہے۔ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ سنو مجھے ایسا ہے جیسا کہ میری اولاد اے شمس اے قمر۔ قرآنی وحی میں کہیں یہ رنگ نہیں ہے۔ بلکہ ولدکے لفظ پر یہاں تک غضب ظاہر فرمایا ہے۔ ’’تکاد السموٰت یتفطرون منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ہدّا ان دعوا للرحمن ولداً‘‘ کہیں محمد کی تحمید نہیں۔کہیں محمد کی نسبت ایسے الفاظ نہیں بلکہ جابجا خداوند عالم کی ہی تحمید اور تقدیس ہے اور خلق خدا کے لئے وعظ ونصیحت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھ پر ایمان لانے کے بغیر نجات نہیں۔ مگر محمدﷺ فرماتے تھے: ’’من قال لا الہ الا اﷲ دخل الجنۃ ولو سرق وزنی‘‘ آپ کا تمام دارومدار پیش گوئیوں پر ہے۔ مگر محمدﷺ ہر وقت اصلاح ایمان واعمال واخلاق کی طرف مشغول تھے۔ قرآن مجید فرماتا ہے: ’’ان اﷲ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء‘‘ مگر آپ کی وحی شاید یہ کہتی ہے۔ ’’ان اﷲ لا یغفر ان لا یؤمن بغلام احمد ویغفر مادون ذلک لمن یشاء‘‘ جیسا کہ آپ کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ کی وحی کے اصل الفاظ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا ہیں۔ پس میں باادب ملتمس ہوں کہ آپ کی وحی بذات خود کسی اصلاح کی بنیاد نہیں ہوسکتی۔ تاوقتیکہ آپ اس کے ہر لفظ کو قرآنی وحی کے تابع نہ بنائیں۔ آپ کی وحی نے تو خداوند عالم کی نسبت روزہ رکھنا، روزہ کھولنا بھی منسوب کیا۔ مگر قرآنی وحی ایسے استعارات اور تشبیہات استعمال کرنے سے منزہ اور پاک ہے۔ خاص مسیح