احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اثر اس تمام جماعت پر سے اٹھ گیا۔ کیا اسلام بالکل مردہ ہوگیا۔کیا قران مجید بالکل بے اثر ہوگیا۔ کیا رب العالمین، محمد، قرآن، فطرت اﷲ اور عقل انسان بالکل معطل اور بیکار ہوگئے کہ آپ کی جماعت کے سوائے نہ باقی مسلمانوں میں راست باز ہیں نہ باقی دنیا میں۔ بلکہ تمام کے تمام سیاہ باطن سیاہ کار اور جہنمی ہیں۔ کیا رب العالمین اور الرحمن اور الرحیم کے تمام فیضان محض احمدی جماعت کے واسطے ہی محدود ہوگئے؟ جب ہم صریحاً دیکھ رہے ہیں کہ تمام ظاہری کمالات میں وہ اعلیٰ درجہ کی ترقی کر رہے ہیں۔ معاملات میں سچے اور نیک ہیں۔ خداپرست، ہمدرد بنی نوع اور راست باز ہیں۔ تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ رب العالمین… ان کا سراسر دشمن ہے اور ان کے لئے کامیابی اور ترقی کی راہیں بالکل بند ہیں۔ فرق محض اس قدر ہے کہ مقابلۃً آپ کی جماعت میں سعید اور رشید بہت زیادہ ہیں۔ اس کے بعد عیسائیوں میں سافٹس اور برہموں میں موحد راست باز باعمل اور جان نثار بکثرت ہیں۔ بعض مسائل فروعی میں اختلافات ایک علیحدہ امر ہے۔ یہ اختلاف ایسا ہی اٹل ہے جیسا کہ ظاہری صورت کے اختلافات نہ خاص، آنحضرتﷺ کے ارشاد کے مطابق جب ابوہریرہؓ اعلان کرنے چلے۔ ’’من قال لا الہ الا اﷲ فدخل الجنۃ‘‘ اور راستہ میں حضرت عمرؓ ملے تو آپ نے ایک مکّا ان کی چھاتی میں مارا اور گرادیا اور ابوہریرہؓ کو واپس لے چلے۔ محمد مصطفیٰﷺ نے یہ حال سن کر حضرت عمرؓ کو مرتد نہیں کہا۔ حالانکہ ایک صریح مخالفت تھی۔ الاعمال بالنیات۔ یہی انشراح تمام حکمت کی بنیاد ہے۔ جو شخص کوئی مخالف بات اپنی نسبت برداشت نہیں کر سکتا۔ بلکہ خدا کی طرح اپنے آپ کو علیم اور قدوس سمجھتا ہے وہ کبھی کل بنی آدم کا رہبر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بنی نوع کی فطرتیں اور مذاق نہایت ہی مختلف اور متفاوت واقع ہوئے ہیں۔ اس لئے ایک حد تک اختلاف لابد ہے۔ ایسا ہی قیدیان بدر کی بابت حضرت عمرؓ کی رائے جناب باری میں قبول ہوئی اور ابوبکر صدیقؓ اور آنحضرتﷺ کے فیصلہ پر عتاب نازل ہوا۔ اس سے جناب رسول خداﷺ کی شان میں کوئی فرق نہیں آیا اور نہ حضرت عمرؓ مردوں میں شمارہوئے۔ بلکہ یہی ثابت ہوا کہ وہ ایک بشر بھی تھے۔ اس لئے مشورہ کی ضرورت تھی۔ جو قوم باہمی مشورہ اور مباحثہ کی عادی نہیں وہ نہ کبھی اپنی اصلاح کرسکتی ہے نہ دوسروں