احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
نظارت دعوۃ وتبلیغ کی طرف سے اس کی خریداری کا اعلان نہ ہو۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۳ء) ایک ٹریکٹ کے متعلق اعلان کیاگیا کہ: ’’اس ٹریکٹ کو ضبط کیا جاتا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ جس کے پاس یہ ٹریکٹ موجود ہو وہ اسے فوراً تلف کر دیں اور شائع کرنے والے صاحب سے جواب طلب کیاگیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ جس قدر کاپیاں اس ٹریکٹ کی ان کے پاس ہوں وہ سب تلف کر دی جائیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۷؍دسمبر ۱۹۳۳ء) جب نظارت تالیف وتصنیف کو اس ٹریکٹ کی اشاعت کا علم ہوا تو اس نے اس کی اشاعت ممنوع قرار دے دی اور اسے بحق جماعت ضبط کر کے تلف کر دینے کا حکم دے دیا۔ نیز ٹریکٹ شائع کرنے والے سے جواب طلب کیا۔ (الفضل مورخہ ۴؍دسمبر ۱۹۳۴ء) غور فرمائیے کہ اب ریاست کے مکمل ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔ خلیفہ فرماتے ہیں: ’’اب تک تین رسالوں کو میں اس جرم میں ضبط کرچکا ہوں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍مارچ ۱۹۳۶ء) اس سلسلہ میں خلیفہ کی ریاست کا سب سے گندہ پہلو یہ ہے کہ جن کتب اور اخبارات کو ضبط نہیں کر سکتے یا کرواسکتے، ان کے متعلق اپنی رعایا یا مریدوں کو یہ ارشاد ہوتا ہے کہ وہ اسے پڑھیں نہیں۔ کیا ایک مذہبی، دینی اور تبلیغی جماعت جنہوں نے دوسروں تک اپنی بات پہنچانی ہوتی ہے۔ ان کی طرف سے تعزیری اقدام ان کے لئے باعث فخر ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ روزنامہ ’’نوائے پاکستان‘‘ جو وقتاً فوقتاً خلیفہ کے متعلق بعض اہم حقائق کو منظر عام پر لاتا رہتا ہے۔ خلیفہ نے اپنے ہوم سیکرٹری (ناظر امور عامہ) کے ذریعہ اس اخبار کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ اس سے پہلے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقعہ پر اعلان ہوچکا ہے کہ حقیقت پسند پارٹی کا شائع کردہ لٹریچر کوئی احمدی نہ پڑھے۔ بلکہ پھاڑ کر پھینک دے یا خلیفہ کے ہوم سیکرٹری یا محکمہ حفاظت مرکز کے پاس بحفاظت پہنچادیں۔ (الفضل مورخہ ۷؍اپریل ۱۹۵۷ء) خلیفہ اپنے دارالخلافہ میں جس طرح لوگوں کو اپنی ریاست کا مطیع اور فرمان بردار بنا رکھا ہے۔ باشندگان ربوہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے حاکم اعلیٰ ان کے خلیفہ ہیں۔ حکومت بھی ان کو خلیفہ کے چنگل سے نہیں بچاسکتی۔ ان کے سامنے قادیان سے لے کر ربوہ تک کی مثالیں موجود ہیں کہ حکومتی نظام سنگین واردات کی کھوج لگانے میں ناکام رہا۔ اگرکھوج لگا سکا تو عدالت میں جاکر مقدمات فیل ہوگئے۔