احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
آزادیٔ رائے پر پہرے آمرانہ حکومتوں میں آزادیٔ رائے عنقا ہوتی ہے۔ ایسا ہونا آمریت کے مزاج کے مطابق ہے۔ بلکہ وہاں افکار پر سنگین پہرے ہوتے ہیں۔ ہٹلر کے دور اقتدار میں کوئی جرمن باشندہ آزادی سے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے بڑے بڑے مفکر اور سائنس دان بھاگ کر جمہوری ملکوں میں آباد ہوگئے تھے۔ جاپان میں دوسری عالمگیر جنگ سے پہلے شاہ میکاڈو کی حکومت میں پولیس کا ایک حصہ تھا۔ جس کو (Thought Police) کہتے تھے۔ اس کایہ فرض تھا کہ وہ ملک میں گفتار وکردار کے علاوہ افکار کا جائزہ لیتی رہے۔ یہی حال قادیانی میکاڈو کا ہے۔ یہ بھی اپنی مملکت میں کسی کو نہ سوچنے دیتا ہے نہ ہی کسی کو یہ اجازت ہے کہ وہ آزادانہ طور پر تصنیفی یا تالیفی کام کرے۔ ان کے ہاں اس (Thought Police) کو نظارت تالیف واشاعت کہتے ہیں۔ بظاہر یہ کتنی بھلی اصطلاح ہے۔ حالانکہ اس کا اوّلین فرض ہے کہ تالیف اور اشاعت پر قفل لگاوے۔ اگر اس کو نظارت تعزیر واحتساب کہا جاتا تو زیادہ صحیح ہوتا۔ قاعدہ یہ ہے کہ ’’تمام وہ لٹریچر جو احمدی احباب تصنیف فرمادیں۔ اگر وہ کسی موضوع پر ہو تو محکمہ تالیف واشاعت میں روانہ فرمادیں اور محکمہ مذکورہ بعد ملاحظہ وتصحیح ضروریہ اسے اشاعت کے لئے منظور کرے اور کوئی کتاب یا رسالہ بغیر محکمہ مذکورہ کے پاس کرنے کے احمدیہ لٹریچر میں شائع نہیں ہوسکتا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۲۲ء) ’’اسی طرح مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ نے بمنظوری حضرت خلیفہ المسیح بذریعہ ریزولیوشن نمبر ایک ۱۹۲۸ء یہ فیصلہ کیا تھا کہ سلسلہ کی طرف سے کوئی کتاب ٹریکٹ وغیرہ بغیر منظوری نظارت تالیف واشاعت چھپنے اور شائع ہونے نہ پائے۔ اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو اس کتاب کی اشاعت بند کر دی جائے گی۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۹؍جنوری ۱۹۳۳ء) چنانچہ ان تجاویز پر عمل شروع کر دیا گیا۔ المبشر نام سے قادیان سے ایک رسالہ نکلتا تھا۔ جس کے ایڈیٹر ایک مشہور قادیانی صحافی تھے۔ لیکن ریاست محمودیہ کے نزدیک بعض نقائص ایسے تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے ’’المبشر‘‘ کو مرکز سلسلہ سے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ (الفضل مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۳۷ء) ’’اسی طرح اعلان کیاگیا کہ کتاب ’’بیان المجاہد‘‘ (جو مولوی غلام احمد سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ وتعلیم السلام کالج) نے شائع کی ہے۔ کوئی صاحب اس وقت تک نہ خریدیں جب تک