احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
یہ ایسا بینک ہے جس کا نام امانت فنڈ ہے۔ جو اگر ضائع ہو جائے تو امین اس کا شرعاً ذمہ دار نہیں ہوتا۔ تقسیم ہند کے بعد جن احمدی احباب کے اکاؤنٹ قادیان میں امانت فنڈ میں تھے ان کو کچھ نہیں ملا تھا۔ حالانکہ وہ تمام رقم مرزامحمود کے ذاتی ہوائی جہاز کے ذریعہ پاکستان لائی گئی تھی۔ صیغہ امانت میں گورنمنٹ کے افسروں کے کھاتے کھلے ہیں۔ ہم محکمہ انکم ٹیکس والوں کو بھی توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس امر کی چھان بین کرے۔ انہیں بڑی مفید معلومات حاصل ہوں گی اور وہ تمام لوگ جو گورنمنٹ ٹیکسوں سے بچنے کے لئے بینکوں کی بجائے یہاں روپیہ رکھتے ہیں۔ منظر عام پر آجائیں گے اور گورنمنٹ ملازم جن کے لئے اپنی مالی پوزیشن کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ ان کے متعلق تمام کوائف طشت ازبام ہو جائیں گے۔ بینکاری کا معاملہ بڑا سنگین معاملہ ہے۔ اگر کوئی بینک بیٹھ جائے تو کتنے لوگ برباد ہو جاتے ہیں۔ پیپلز بینک جب دیوالیہ ہوا تھا تو کس طرح ملک میں کہرام مچ گیا تھا۔ بینک تو بند ہوگیا۔ مگر ان بیواؤں اور یتیموں کا رونا کس طرح بند نہ ہوا۔ جن کا روپیہ اس میں امانت پڑا ہوا تھا۔ گورنمنٹ نے اس کا کیا انسداد کیا ہے۔ اگر ’’خلیفہ‘‘ کی بے تدبیری اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی اور آئے دن کی اوور ڈرافٹس (Overdrafts) اور صیغۂ امانت سے قرض کے نام پر نکلوائی ہوئی بھاری رقم سے یہ بینک دیوالیہ ہوگا جس کا دیوالیہ ہو جانا ایک یقینی امر ہے تو امانت والوں کا کیا بنے گا۔ پاکستان کے شہریوں کے اموال کی حفاظت کا کیا بندوبست کیا ہے۔ حکومت کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہئے کہ ربوہ کا یہ بینک ’’خلیفہ‘‘ کی بے اعتدالیوں کے باعث شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اس کے کل سرمایہ میں سے جو تقریباً ۲۳لاکھ روپیہ ہے۔ ۱۸لاکھ روپے کی گرانقدر رقم عملاً خوردبرد کی جاچکی ہے۔ اگر اس بینک کا کوئی باقاعدہ میزانیہ تیار کروایا جائے تو حکومت کو خود علم ہو جائے گا کہ یہ عملاً دیوالیہ ہوچکا ہے اور اس کے واجبات زیادہ اور اثاثہ اس کے بالمقابل برائے نام ہے۔ مخفی اخراجات حکومت کو بعض اوقات مخفی طور پر بعض اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ خلیفہ کے ریاستی بجٹ میں بھی یہ مد موجود ہے۔ خلیفہ خود فرماتے ہیں: ’’صرف ایک مد خاص ایسی ہے جس کے اخراجات مخفی ہوتے ہیں۔ مگر میں ان کے متعلق بھی بنادینا چاہتا ہوں کہ ان مخفی اخراجات کی مد میں سے جو بعض دفعہ خبر رسانیوں اور ایسے ہی اور اخراجات پر جو ہرشخص کو بتائے نہیں جاسکتے۔ خرچ ہوئے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲؍جولائی ۱۹۳۷ء)