احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
جے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ میں اپنے ڈبے سے اترا وہاں سے اسٹیشن ماسٹر کا دفتر بھی نظر آتا ہے۔ گاڑی اتر کر میں اسٹیشن ماسٹر کے دفتر کی جانب گیا۔ مرزا سمیع اسٹیشن ماسٹر کو میں بخوبی جانتا تھا۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ کچھ دیر وہاں گذاروں۔ میں نے باہر سے دفتر میں دیکھا تو بشیر احمد عمومی فون پر بات کر رہا تھا اور وہاں دو تین اور آدمی بھی موجود تھے۔ اسٹیشن ماسٹر وہاں موجود نہ تھا۔ میں وہیں کھڑا ہوگیا اور پلیٹ فارم پر ہونے والی گڑ بڑ کو دیکھتا رہا۔ اسی اثناء میرے سامنے کے سیکنڈ کلاس کے ایک ڈبہ سے دو طلبہ کو گھسیٹ کر اتارا گیا اور انہیں پلیٹ فارم پر زدوکوب گیا۔ گاڑی کے پچھلے حصہ کی جانب ہنگامہ زیادہ تھا۔ لہٰذا میں وہاں جاکر کھڑا ہوا۔ وہاں احمدیت زندہ باد، غلام احمد کی جے اور پکڑو، مارو، جانے نہ پائے کے نعرے سنائی دیئے۔ ہجوم کی تعداد تین چار ہزار تھی۔ البتہ مارنے والے کم تھے۔ گاڑی کے پچھلے حصہ میں لوگ طلباء کو مار رہے تھے اور وہاں کچھ لوگ اکسانے والے بھی تھے۔ جو دوسروں کو کہتے تھے کہ ’’جاؤ احمدیت کا حق ادا کرو۔‘‘ اکسانے والوں میں سے میں عبدالحمید چیمہ، ملک خدا بخش ریٹائرڈ تھانیدار اور مولوی برکات احمد کو جانتا ہوں۔ یہ سب ربوہ شہر کے رہنے والے ہیں۔ جب میں نے دو تین آدمیوں سے واقعہ پوچھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ: ’’جاؤ احمدیت کا حق ادا کرو۔‘‘ کچھ دیر بعد اکسانے والوں نے مارنے والوں سے کہا کہ بس کرو۔ کافی ہوچکا۔ اس لئے واپس آجاؤ۔ جب گاڑی چل پڑی تو یارڈ کی طرف میں نے کافی سامان بکھرا ہوا پایا۔ اس طرف کو سرظفر اﷲ کی کوٹھی ہے۔ جہاں سے پانچ چھ آدمی کھڑے ہوکر دیکھ رہے تھے۔ ہنگامہ دیکھ کر میری طبیعت خراب ہوگئی اور میں سرگودھا جانے کے لئے چل پڑا۔ تاکہ بس اڈہ پر جاؤں۔ میرے آگے چند قدم کے فاصلہ پر کالج کے طلباء کی ایک ٹولی جارہی تھی۔ ان میں سے ایک طالب علم شیر باز نے جسے میں جانتا ہوں میرے پوچھنے پر بتایا کہ آج ہم نے بتایا کہ ہمارے خلاف بولنے والوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ جب میں سرظفر اﷲ خاں کی کوٹھی کے قریب سے گذرا تو میں نے میاں محمد رفیق، ظہور باجوہ اور راشد کو دیکھا۔ جن کے ساتھ دو اور آدمی بھی تھے۔ یہ لوگ کوٹھی کے برآمدہ میں کھڑے تھے۔ میاں محمد رفیق موجودہ خلیفہ ناصر احمد کے بھائی ہیں۔ وہاں دو باڈی گارڈ بھی کھڑے تھے۔ جن کے پاس غالباً جی تھری کی رائفلیں تھیں۔ پھر میں لاری اڈہ پر آگیا اور بس میں سوار ہوکر سرگودھا چلا گیا۔ سرگودھا سے دوسرے دن بس میں اڈہ پر آیا اور تانگہ میں بیٹھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ میاں رفیق اپنے ساتھیوں ملک خدا بخش ریٹائرڈ تھانیدار محمد منور وغیرہ کے ساتھ ایوان محمود کے سامنے کھڑے تھے۔ میاں رفیق نے مجھے کہا کہ پٹھان تم نے ہمارے خلاف بکنے