احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
’’کیا آپ کو علم ہے کہ صدرانجمن احمدیہ پاکستان کے خزانہ میں احباب اپنی امانت ذاتی کا حساب کھول سکتے ہیں اور جو روپیہ اس طرح پر جمع ہو وہ حسب ضرورت جس وقت بھی حساب دار چاہے واپس لے سکتا ہے۔ جو روپیہ احباب کے پاس بیاہ شادی، تعمیر مکان، بچوں کی تعلیم یا کسی اور ایسی ہی غرض کے لئے جمع ہو اس کو بجائے ڈاکخانہ یا دوسرے بینکوں میں رکھنے کے خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں جمع کرانا چاہئے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۳۸ء) ملاحظہ ہو کس طرح کھلم کھلا گورنمنٹ کے ڈاکخانوں اور بینکوں میں روپیہ جمع کرنے سے لوگوں کو روکا گیا۔ ہمارے خیال میں کسی بڑے سے بڑے بینک نے بھی یہ جرأت نہیں کی ہوگی کہ وہ لوگوں کو یہ تلقین کرے کہ رقم صرف اسی ایک بینک میں جمع کرائی جائے۔ یہ بینک خلیفہ کی ریاست کو بوقت ضرورت روپیہ مہیا کرتا ہے۔ خود خلیفہ اور ان کے عزیزوں کو (Overdraft) کے ذریعہ متعدد بار رقمیں مہیا کر چکا ہے۔ اس وقت خلیفہ اور ان کا خاندان اسی بینک سے مبلغ سات لاکھ روپے کی رقم لے چکے ہیں۔ اسی بینک کی سیاسی افادیت کا حال بھی خلیفہ کی زبانی سنئے: ’’اس کے علاوہ اس کے ذریعہ احرار کو خطرناک شکست ہوئی۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۳؍جنوری ۱۹۳۷ء) نیز فرمایا: ’’اگر دس بارہ سال تک ہماری جماعت کے لوگ اپنے نفسوں پر زور ڈال کر اس میں روپیہ جمع کرواتے رہیں تو خداتعالیٰ کے فضل سے قادیان… اور اس کے گردونواح میں ہماری جماعت کی مخالفت ۹۵فیصد کم ہوجائے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۳؍جنوری ۱۹۳۷ء) پس کس طرح قادیان اور اس کے ماحول کو سنبھالنے کی اس بینک کے ذریعہ تجاویز مرتب کی گئیں اور پھر کس طرح احرار کو اسی بینک کی طاقت سے شکست دی گئی۔ کیا یہی بینک کل کسی اور کو شکست دینے کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا؟ کیونکہ خلیفہ خود فرماتے ہیں: ’’ہم اس روپیہ سے تمام وہ کام کر سکتے ہیں جو حکومتیں کیا کرتی ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۳۸ء) اور پھر بالفاظ ’’خلیفہ‘‘: ’’میں اس مد (امانت تحریک) کی تفصیلات کو بیان نہیں کر سکتا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۳؍جنوری ۱۹۳۷ء) ’’اور یہ بھی یاد رکھئے کہ امانت فنڈ کی تحریک الہامی تحریک ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۸؍فروری ۱۹۳۷ء) صیغہ امانت ’’بینک‘‘ ہے۔لیکن بینک کی سی کوئی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوتی۔ لیکن