احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
یاد رہے دریائے بیاس کا ہی وہ رنگین اور پر بہار کنارہ تھا جہاں خلیفہ اپنی مستورات اور دیگر نامحرم لڑکیوں کو لے جاکر چاند ماری کی مشق کرایا کرتے تھے۔ جبری بھرتی اس فوج کے لئے خلیفہ نے جبری بھرتی کا اصول اختیار کیا تھا۔ ’’امور عامہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ میرا فیصلہ یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر سے لے کر پینتیس سال کی عمر تک کے تمام نوجوان کو اس میں جبری طور پر بھرتی کیا جائے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍اکتوبر ۱۹۳۳ء) اس فوج کی باقیات الصالحات تھی جس کے باوردی والنٹیرز نے سرڈگلس ینگ کو جو اس وقت پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے کا استقبال کیا تھا۔ (الفضل مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۳۹ء) لاہور جاکر پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی سلامی دی تھی۔ ابتداء میں ناظر امور عامہ نے اس فوج کی کمان سنبھالی تھی۔ لیکن جلد ہی خلیفہ کی بارگاہ سے اس بارہ میں سرزنش آگئی۔ ’’کمانڈرانچیف اور وزارت کا عہدہ کبھی بھی اکٹھا نہیں ہوا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۳۳ء) اس فوجی تنظیم کے قیام پر خلیفہ کو اتنا ناز تھا کہ سرکاری گزٹ الفضل نے ایک موقعہ پر لکھا کہ حضور نے احمدیہ کور کی جو سکیم آج سے تقریباً پانچ سال پہلے تجویز فرمائی تھی اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ عام اقوام تو الگ رہیں اس وقت بعض بڑی بڑی حکومتیں بھی اپنی قوت مدافعت میں اضافہ کرنے کے لئے بعض ایسے احکام نافذ کر رہی ہیں کہ جو اس تحریک کے اجزاء ہیں۔ (الفضل مورخہ ۱۲؍اگست ۱۹۳۹ء) اگر قادیانی خلافت کا مقصد محض اشاعت اسلام تھا تو اس مقدس مقصد کے لئے تصنیفی تالیفی اور اشاعتی ادارے قائم ہوتے نہ کہ فوجی تربیت پر زور دیا جاتا اور اس کے لئے ایک باقاعدہ عسکری نظام قائم کیا جاتا۔ اصل میں خلیفہ کے لاشعور میں بادشاہ بننے کی آرزوئیں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ ’’اشاعت اسلام‘‘ کا نعرہ مخضوص دھوکے کی ٹٹی تھی۔ کیونکہ قادیانی عوام کالانعام سے روپیہ وصول کرنے کا اور کوئی طریق نہیں تھا۔ اسلام کے نام پر حاصل کیا ہوا روپیہ ہوس اقتدار کی تسکین پر صرف ہوجاتا۔ یہ طرز عمل نہ صرف ان کی نیت اور ارادے کی غمازی کرتا ہے۔ بلکہ ان کے سیاسی منصوبوں کو بھی طشت ازبام کرتا ہے۔ اپنے عسکری مقاصد کے حصول کے لئے خدام الاحمدیہ قائم کی گئی۔ اس کا باقاعدہ ایک پرچم بنایا گیا۔ اس کے متعلق خلیفہ فرماتے ہیں: ’’خدام الاحمدیہ میں داخل ہونا اور اس کے مقررہ قواعد کے ماتحت کام کرنا ایک اسلامی فوج تیارکرنا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۷؍اپریل ۱۹۳۹ء)