احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
کے لحاظ سے بھی وہ مجلس مشاورت کے نمائندوں کے لئے بھی صدر اور راہنمائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’جماعت کی فوج کے الگ دو حصے تسلیم کر لئے جائیں تو وہ اس کا بھی سردار ہے اور اس کا بھی کمانڈر ہے اور دونوں کے نقائص کا ذمہ دار ہے اور دونوں کی اصلاح اس کے ذمہ واجب ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۳۸ء) غرض جماعت احمدیہ میں خلافت ایک دنیاوی بادشاہت کی حیثیت رکھتی ہے۔ خلیفہ کا ہر حکم احمدیوں کے نزدیک قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ خلیفہ کے ادنیٰ اشارہ پر اپنی جان ومال قربان کر دیا جاتا ہے۔ احمدیوں کی کمائی کا اکثر حصہ خلیفہ کی جیب کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں جو مبلغ ہیں وہ دراصل خلیفہ کے کارخاص اور سفارت خانے ہیں اور تمام بیرونی ممالک کی کرنسی جو چندہ کی صورت میں ان کو ملتی ہے وہ اس کو استعمال کرتے ہیں۔ خلیفہ کا نظام اس قدر خطرناک ہے کہ ایک بڑی سے بڑی حکومت کے نظام کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ دوسری حکومتوں میں اپنے حلیف پیدا کئے جاتے ہیں۔ خلیفہ کا کہنا ہے کہ حکومتیں، ملک اور قومیں مجھ سے ڈرتی ہیں۔ خلیفہ اپنی ’’کار خاص‘‘ کے ذریعہ مملکت کے راز معلوم کرتا ہے۔ اس کی اپنی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، فوج اور بینک تھے۔ مملکت محمودیہ ربوہ میں کسی احمدی کو قبل ازوقت اجازت حاصل کئے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اس بارہ میں سرکاری گزٹ الفضل کا مندرجہ ذیل اعلان ملاحظہ فرمائیے: مضافات قادیان، منگل، باغبان بانگر خورد وکلاں، نواں پنڈ قادرآباد اور احمدآباد وغیرہ میں سکونت اختیار کرنے کے لئے باہر سے آنے والے احمدی دوستوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے نظارت ہذا سے اجازت حاصل کریں۔ (الفضل مورخہ ۲۵؍جنوری ۱۹۳۹ء) پھر ربوہ میں آکر ۱۹۴۸ء میں خلیفہ اعلان فرماتے ہیں: ’’سب تحصیل لالیاں میں کوئی احمدی بلااجازت انجمن زمین نہیں خرید سکتا۔‘‘ پھر ربوہ میں داخل ہونے کے بارے میں خلیفہ کا حکم امتناعی ملاحظہ ہو: ’’ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ آئندہ ایسے لوگوں کو جن کو یا تو ہم نے جماعت سے نکال دیا ہے یا جنہوں نے خود اعلان کر دیا ہوا ہے کہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں۔ آئندہ انہیں ہماری مملوکہ زمینوں میں آکر ہمارے جلسوں میں شامل ہونے کی اجازت نہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍فروری ۱۹۵۶ء)