احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
کران کے نام پر سیاسی حقوق لے کر سوچا یہ جارہا تھا کہ آزادی اور حکومت مسلمانوں سے پہلے ان کی ہی سرکوبی کے لئے حاصل کی جائے گی۔ خلیفہ ربوہ کے سرکاری گزٹ الفضل نے لکھا تھا: ’’جو فتح اپنے وقت سے ذرا پیچھے ہٹ جاتی ہے اس کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔‘‘ (الفضل ۸؍نومبر ۱۹۳۰ء) اب اپنی فتح کی امیدوں کو پاش پاش ہوتا دیکھ کر زخمی سانپ کی طرح بے تاب ہیں اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے لئے سیاسی جوڑ توڑ میں مشغول ہیں۔ ہم حکومت کو اس بات سے آگاہ کر دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کی سازشوںاور حرکات کو اپنی نگاہ میں رکھے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرے۔ کسی دشمن کا مقابلہ اس کے طریق کار کو سمجھنے کے بعد ہی کامیابی سے کیا جاسکتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس کی دسیسہ کاریوں اور روباہی چالوں کو پہلے سے سمجھ لیا جائے۔ ’’دنیا کا چارج سنبھالنا، حکومت پر قبضہ کرنا، اپنا اقتدار قائم کرنا۔‘‘ یہی وہ تصورات تھے جن کی بدولت خلیفہ ربوہ کے بعض سادہ لوح مریدوں کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور بنگال کی گورنری وغیرہ کے خواب دیکھنے لگ گئے۔ لیکن یہ محض تصورات ونظریات ہی نہ تھے بلکہ خلیفہ ربوہ نے اپنی جماعت کو ان نظریات کی عملی تعبیر کے لئے جماعت کی باقاعدہ تربیت کی اور اپنی ’’سحر سامری‘‘ سے اپنے مریدوں کو حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے شعوری اور غیرشعوری طور پر ابھارتے رہے۔ اس ضمن میں خلیفہ محمود کے اپنے ارشادات ملاحظہ فرمائیے: ’’اس وقت اسلام کی ترقی خداتعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ یاد رکھو کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ اور تعلیم کے ذریعہ سے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اسلام کی ساری تعلیموں کو جاری نہیں کر سکتے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍جنوری ۱۹۳۷ء) ’’یہ مت خیال کرو کہ ہمارے لئے بھی حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا ایسا ہی ضروری ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍جنوری ۱۹۳۷ء) اسی طرح خلیفہ ربوہ کے ہاں جو بھی اندرونی نظام ہے وہ حفاظت مرکز، خدام الاحمدیہ، احمدیہ کور،یا دیگر کسی نام سے بھی قائم کیا جاتا ہے۔ خلیفہ خود ہی اس کا سالاراعظم اور فیلڈ مارشل ہوتا ہے اور جماعت کی ہر قسم کی فوجی تنظیموں کی سربراہی اور سرپرستی آپ کو حاصل ہے۔ خود خلیفہ فرماتے ہیں: ’’مجلس شوریٰ ہو صدر انجمن احمدیہ۔ انتظامیہ ہو یا عدلیہ فوج ہو یا غیرفوج۔ خلیفہ کا مقام بہرحال سرداری کا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ یکم؍ستمبر ۱۹۳۲ء) انتظامی لحاظ سے صدر انجمن کے لئے بھی راہ نما ہے اور آئین سازی وبحث کی تعیین