احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
نہیں ہو جاتے۔ ابھی احمدیت چونکہ بالغ نہیں ہوئی اور بالغ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس خزانہ پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ اس لئے اگر اس وقت یہ دیوار گرجائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے لوگ اس پر قبضہ جمالیں گے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۲۲ء) ’’اصل تو یہ ہے کہ ہم نہ انگریز کی حکومت چاہتے ہیں نہ ہندوؤں کی۔ ہم تو احمدیت کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۲۲ء) ’’میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ انگریزی حکومت چھوڑ، دنیا میں سوائے احمدیوں کے اور کسی کی حکومت نہیں رہے گی۔ پس جب کہ میں اس بات کا قائل ہوں بلکہ اس بات کا خواہشمند ہوں کہ دنیا کی ساری حکومتیں مٹ جائیں اور ان کی جگہ احمدی حکومتیں قائم ہو جائیں تو میرے متعلق یہ خیال کرنا کہ میں اپنی جماعت کے لوگوں کو انگریزوں کی دائمی غلامی کی تعلیم دیتا ہوں کہاں تک درست ہوسکتا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۹۳۹ء) ’’ہم میں سے ہر ایک آدمی یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے اندر ہی (خواہ ہم اس وقت زندہ رہیں یا نہ رہیں لیکن بہرحال وہ عرصہ غیرمعمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا) ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہو جائے گی۔ یہ خیال ایک منٹ کے لئے کسی سچے احمدی کے دل میں غلامی کی روح پیدا نہیں کر سکتا۔ جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ ان سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت عجزوانکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کر رہے ہوں گے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۳۸ء) ’’اس وقت حکومت احمدیت کی ہوگی آمدنی زیادہ ہوگی۔ مال واموال کی کثرت ہوگی۔ جب تجارت اور حکومت ہمارے قبضہ میں ہوگی اس وقت اس قسم کی تکلیف نہ ہوگی۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍جون ۱۹۲۶ء) ’’اس وقت تک کہ تمہاری بادشاہت قائم نہ ہو جائے۔ تمہارے راستے سے یہ کانٹے ہرگز دور نہیں ہوسکتے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍جولائی ۱۹۳۰ء) دیکھ لیجئے! ’’خلیفہ صاحب‘‘ مستقبل قریب میں حصول اقتدار کی امیدیں کس قدر وثوق کے ساتھ لگائے بیٹھے ہیں اور حصول آزادی ہی نہیں بلکہ حصول حکومت کے لئے ان کی راہیں دوسرے ابنائے وطن اور دوسرے مسلمانوں سے کس قدر مختلف تھیں اور یہ اعلان بالوضاحت کیا جارہا تھا کہ مسلمانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے حکومت ان کو نہیں بلکہ صرف اور صرف احمدیوں کو ہی ملے گی اور مسلمان جنہوں نے احمدیت سے اپنا تعلق نہیں جوڑا وہ گرتے ہی جائیں گے اور گرتے