احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
یہی معاملہ بدرجۂ اتم ربوہ میں رونما ہوچکا ہے۔ کیونکہ یہ خالص قادیانی بستی ہے۔ یہاں قانون کی بے بسی ناقابل بیان ہے۔ اگر حکومت دوراندیشی سے کام لیتی اور مرزامحمود احمد کو پاکستان کی پاک سرزمین کا ایک خط کوڑیوں کے مول نہ دیتی بلکہ اس کو مجبور کرتی کہ وہ اور اس کی جماعت کسی شہر میں آباد ہوں یا حکومت کے تجویز کردہ مضافاتی قصبوں میں سکونت پذیر ہوں تو ’’خلیفہ‘‘ کی سیاست کاریوں اور سازشوں پر قفل پڑ جاتے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ چنانچہ ان کو ضلع جھنگ میں ایک وسیع رقبہ قادیانیوں کو آباد کرنے کے لئے ملا اور انہوں نے کمال چابکدستی سے اس کو پاکستان کی دوسری آبادیوں سے منقطع کر کے ایک یاغستان سا بنا دیا اور اس کا نام ربوہ رکھ دیا۔ اس میں خلیفہ کا سکہ رواں تھا۔ اس مطلق العنانی کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی منیر ٹربیونل رپورٹ میں مرقوم ہے: ’’۱۹۴۵ء سے لے کر ۱۹۴۷ء کے آغاز تک احمدیوں کی بعض تحریرات منکشف ہیں کہ وہ برطانیہ کا جانشین بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ نہ تو ایک ہندو دنیاوی حکومت یعنی ہندوستان کو اپنے لئے پسند کرتے تھے اور نہ پاکستان کو منتخب کر سکتے تھے۔‘‘ (رپورٹ منیر انکوائری کمیٹی ص۱۹۶) اب ہم خلیفہ کی سیاست میں مداخلت کوئی غیردینی فعل نہیں بلکہ یہ ایک دینی مقاصد میں شامل ہے۔ جس کی طرف توجہ کرنا وقتی ضروریات اور حالات کے مطابق لیڈران قوم کا فرض ہے… پس قوم کے پیش آمدہ حالات کو مدنظر رکھنا اور اس کی تکالیف کو دور کرنے کی تدبیر کرنا اور ملکی سیاسیات میں رہنمائی کرنا خلیفہ وقت سے بہتر اور کوئی نہیں کر سکتاوالی حکومتوں میں پھیل نہیں سکتا اس لئے خدا نے چاہا ہے کہ ان کی جگہ اور حکومتوں کو لے آئے… پس مسلمانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے خداتعالیٰ نے تمہاری ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۲؍نومبر ۱۹۱۴ء) ’’ہمیں نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار ہوکر رہنا چاہئے کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍جون ۱۹۴۰ء) ’’انگریز اور فرانسیسی وہ دیواریں ہیں جن کے نیچے احمدیت کی حکومت کا خزانہ مدفون ہے اور خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ دیوار اس وقت تک قائم رہے جب تک کہ خزانہ کے مالک جوان