احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
حکومتی غیرت پر تازیانہ لگا اور اس نے اس متوازی حکومت کے خلاف اقدام شروع کر دیا۔ اس کا پہلا سراغ مسٹر جی۔ڈی کھوسلہ کے فیصلہ میں ملتا ہے۔ فاضل جج نے اپنے فیصلے میں مرزامحمود کی ان جارحانہ کارروائیوں کا ذکر کیاہے۔ جو انہوں نے مولوی عبدالکریم (مباہلہ والے) کے خلاف کیں۔ کس طرح ان کے خطبے کے نتیجے میں مولوی صاحب مذکور پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ لیکن ان کا ایک مددگار محمد حسین قتل ہوگیا۔ جب قادیانی قاتل عدالت کے فیصلے کے بعد پھانسی پاگیا تو اس کی لاش کو بڑے تزک واحتشام کے ساتھ قادیان کے بہشتی مقبرے میں دفن کیاگیا۔ اس فیصلے میں محمدامین کے قتل کا بھی ذکر ہے اور فاضل جج نے لکھا ہے کہ محمد امین مورد عتاب ہوکر کلہاڑی کے وار سے قتل ہوا۔اس کے قاتل فتح محمد نے اقرار کیا کہ اس نے قتل کیا ہے۔ لیکن پولیس کارروائی کرنے سے قاصر رہی۔ فیصلہ مذکور میں مرقوم ہے کہ: ’’مرزائی طاقت اتنی بڑھ گئی تھی کہ کوئی سامنے آکر سچ بولنے کے لئے تیار نہ تھا۔ ہمارے سامنے عبدالکریم کے مکان کا واقعہ بھی ہے۔ عبدالکریم کو قادیان سے نکالنے کے بعد اس کا مکان جلادیا گیا۔ اسے قادیان کی سمال ٹاؤن کمیٹی سے حکم حاصل کر کے نیم قانونی طریقے سے گرانے کی کوشش بھی کی گئی۔ یہ افسوس ناک واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ قادیان میں طوائف الملوکی تھی جس میں آتش زنی اور قتل تک ہوئے تھے۔‘‘ ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکام ایک غیرمعمولی درجہ کے فالج کے شکار ہوچکے تھے اور دنیاوی اور دینی معاملات میں مرزامحمود احمد کے حکم کے خلاف کبھی آواز نہ اٹھائی گئی۔ مقامی افسروں کے پاس کئی مرتبہ شکایات کی گئیں۔ لیکن کوئی انسداد نہ ہوا۔ مسل پر ایک دو ایسی شکایات ہیں۔ لیکن ان کے مضمون کا حوالہ دینا غیرضروری ہے اور اس مقدمہ کے لئے یہ بیان کردینا کافی ہے کہ قادیان میں ظلم وجور جاری ہونے کے متعلق غیر مشتبہ الزام عائد کئے گئے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طرف مطلقاً توجہ نہ کی گئی۔‘‘ پھر فیصلہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’مرزا (یعنی مرزامحمود احمد) نے مسلمانوں کو کافر، سور اور ان کی عورتوں کو کتیوں کا خطاب دے کر ان کے جذبات کو مشتعل کر دیا کرتا تھا۔‘‘ (فیصلہ جی۔ڈی کھوسلہ، سیشن جج گورداسپور) یہ عدالتی فیصلہ محمودی سیاست کاریوں کی غمازی کرتا ہے۔ قادیان میں ’’خلیفہ‘‘ کے لئے قتل کرنا اور قتل کے عواقب سے بچ نکلنا یاکم ازکم ’’خلیفہ‘‘ کا محفوظ ومصؤن رہنا ایک ضرب المثل بن چکا تھا۔