احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مولوی عبدالعزیز (بھانبڑی) کی طرف سے چٹھی موصول ہوئی کہ ۲۷؍مارچ ۱۹۵۷ء کی درخواست کے متعلق مجھے دفتر امور عامہ میں ملیں۔ لہٰذا میں مورخہ ۹؍اپریل ۱۹۵۷ء کو ربوہ (چناب نگر) گیا اور ۱۰؍اپریل ۱۹۵۷ء کو دفتر میں ملا۔ جہاں انہوں نے مجھے بٹھائے رکھا۔ جب دفتر بند ہوا تو (محتسب) وصیت کے کمرہ میں لے گیا اور حساب وصیت کے متعلق باتیں شروع کیں۔ اس وقت اس دفتر میں قاضی عبدالرحمن سیکرٹری وصیت، محمد الدین، مسعود، ابراہیم کلرک موجود تھے۔ باتوں باتوں میں اپنی سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت وہ تیز ہوگیا۔ پانچوں آدمی میرے گرد ہوگئے۔ میں نے وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے انداز میں یکدم تبدیلی پیدا کر لی۔ تب انہوں نے مجھے کہا کہ ایک تحریر لکھ دو۔ میں رضامند ہوگیا۔ اس پر عبدالعزیز نے تحریر لکھی۔ میں نے اس کی نقل کر کے دے دی۔ تحریر یہ تھی کہ میں نے حساب دیکھ لیا ہے۔ درست ہے جو (رقم) میں نے لکھی تھی وہ غلط ہے۔ (رقم) ۵۷۷ روپے درست ہے۔ جو ادا کئے جاویں۔ اس ساری جبری کارروائی کے دوران میں عبدالعزیز پستول نکالے۔ میرے سر پر کھڑا رہا۔ دوسرے چاروں آدمی بھی اس کے ساتھ شریک تھے۔ میں نے اس جبر کی وجہ سے اور دوسرے اس لئے کہ میرا بال بچہ بھی ان کے قبضہ میں تھا۔ یہ تحریر لکھ دی ورنہ میرا دوہزار روپیہ ہی قابل وصول تھا۔ تحریر حاصل کرنے کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا اور کہا کہ پرسوں تک تمہیں رقم دے دی جاوے گی۔ اس کے بعد مجھ پر سخت نگرانی شروع کر دی گئی۔ مورخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۵۷ء کو پھر بلایا گیا اور کہا کہ رسید لکھ دو کہ روپے وصول کر لئے۔ میں نے کہا کہ روپے دے دو۔ رسید دے دیتا ہوں۔ محمدالدین کلرک نے ایک معمولی سی چٹ دے دی اور کہا کہ وہ روپے دوپہر تک دے دیگا۔ لہٰذا میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ کسی طرح روپے مل جائیں تو میں اپنا بال بچہ لے کر چلتا ہوں۔ رسید بھی لکھ دی۔ جب دوپہر کو (دفتر سے) اس نے روپے برآمد کر لئے اور میں نے رقم کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگاکہ ان روپوں میں سے ۴۰۷روپے چندہ عام ادا کرو اور جو کاغذات تمہارے پاس ہیں وہ لاکر مجھے دے دو۔ تب میں تم کو ۱۷۰ روپے ادا کروں گا۔ میں نے کہا کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو پھر؟ اس نے کہا تو پھر مولوی عبدالعزیز (بھانبڑی) جو کہ اس وقت تھانہ لالیاں گیا ہوا تھا۔ آوے گا تو بات کریں گے۔ اب میں اس بات کو بھانپ گیا کہ مجھے دھوکہ دے کر یہاں بلایا گیا ہے۔ چونکہ میرے سب کاغذات گاؤں میں ہیں۔ جب ان کو یہ معلوم ہوگیا کہ کاغذات تو اس نے چھپادئیے ہیں تو میں (ان کے نرغہ سے) بچ نہیں سکتا۔ لہٰذا میں نے اس کو جھوٹی تسلی دی