احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
زرینہ کے مصائب کا آغاز اسی وقت سے ہوا۔ ایک دفعہ اس کی امی کو کسی کام کے لئے کسی دوسرے شہر کو جانا پڑا۔ زرینہ گھر میں اکیلی رہ گئی۔ انہی ایام میں اس کے سگے ماموں نے اس بھولی بھالی لڑکی کو بہلا پھسلا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ جب اس کے بڑے بھائی کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بھی اپنی بہن کی آبروریزی پر کمر بستہ ہوگیا اور یہ سلسلہ دور تک چلا گیا۔ (زرینہ، جلالپوری صاحب کو لکھتی ہے) ’’میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی۔ وہ درندوں اور لٹیروں کاماحول تھا۔ میں کس جگر سے بتاؤں کہ میرا سگا بھائی اور سگا ماموں، سگا چچا مجھے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔میں کچھ نہیں جانتی کہ یہ حادثہ کب اور کس طرح پیش آیا اور نہ ہی ان حادثات کی تعداد کا اندازہ ہے۔ میں آپ کو ان دنوں کی ذہنی کیفیت رتی رتی بتا سکتی ہوں۔ ان باتوںکو اتنی کم عمری میں کیونکر سمجھتی تھی کہ بری اور گناہ ہیں۔ پھر بھی کسی کو بتا نہیں سکتی تھی۔ ہاں! چند ہم جولیاں اور ایسی لڑکیاں جو خود ان باتوں سے دو چار تھیں۔ واقف تھیں میری مصیبتوں سے۔ مگرمجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے ذہن پر تو بری طرح بوجھ نہ رہتا تھا وہ تو میری طرح پریشان ہوکر خود کو بچانے کے ایسے جتن نہ کرتی تھیں۔ جب کہ ماضی کے یہ روپ سامنے آتے ہیں تو جنس سے نفرت ہوجاتی ہے۱؎۔ یقین کیجئے کہ میں نے ایسے ہولناک بھیانک چہرے دیکھے ہیں کہ میں آج بھی کانپ اٹھتی ہوں۔‘‘ زرینہ کی ماں گھر لوٹی تو زرینہ کے ماموں نے زرینہ کے بھائی کی شکایت کی اور اپنی بہن کو بیٹے کے خلاف خوب بھڑکایا۔ زرینہ کی ماں نے بیٹی سے پوچھ گچھ کی کہ تمہارا ماموں یہ کہتا ہے۔ زرینہ نے روروکر کہا کہ وہ خود بھی تو ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ یہ سن کر زرینہ کی ماں بیٹی کو گلے لگاکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مشورے کی ابتداء میں مجھے (علی عباس جلالپوری) شک تھا کہ زرینہ جنس زدہ ہے اور جو بھی مرد اس سے مخاطب ہوتا ہے وہ اس کے بارے میں خیال ہی خیال میں فرض کر لیتی ہے کہ میرا اس سے جنسی تعلق ہے۔ لیکن بعد میں مجھے یقین آگیا کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے حرف بہ حرف صحیح ہے۔‘‘ (جنسیاتی مطالعے ص۴۴،۴۵) زرینہ کے اس حادثے کے لکھنے کے بعد مزید ایک عطائی اور ڈاکٹر صاحب کا پیش آنے والا حادثہ بیان کرتے ہیں۔ زرینہ نے جو اپنی سرگزشت جلالپوری صاحب کو رقم کی یہ ظاہر ۱؎ مرزامحمد حسین بی۔کام اور داؤد احمد کا بھی یہی حال ہے۔ انہوں نے مرزامحمود کی جنسی مجلس میں جو مشاہدات کئے ہیں ان کی وجہ سے شادی سے متنفر ہو گئے۔ محمد حسین تو بغیر شادی فوت ہوگئے اور داؤد احمد زندہ ہیں۔ لیکن شادی نہیں کی۔