احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
الخاطر‘‘ میں جنسی مباحث ہیں۔ شیخ نفزادی نے جنسی مقاربت کے تمام طور وطریقوں کو شرح وبسط سے بیان کیا ہے۔ جنسی بے راہ روی کا تسلسل اب تک قائم ہے۔ دور حاضر میں ہر زبان میں نثر اور نظم میں یہ ادب پیدا ہورہا ہے۔ چنانچہ بوکا چیو اور شہزادی مارگریٹ کی کہانیاں۔ بڑارکا کے سائینٹ۔ دلاں کی نظمیں، چاسر کی شاعری، شیکسپیئر اور مولئیر کی تمثیلات، ڈاؤنچی، مائیکل انجلو اور رافیل کی تصاویر ذوق جمالیات کی عکاسی کرتی ہیں۔ اٹھارھویں صدی، یورپ کی جنسی کجروی کا دور کہلاتا ہے۔ ادباء نے جنسی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ مارگن، رابرٹس سمتھ، ٹامکر فریزر، رابرٹ برفالٹ ایڈووڈ ولسٹیر مارک اور رچرڈ لیوں نے علم جنسیات کو وسعت دی۔ ہرش فیلڈ، پولی ایڈلر، فرنینڈوہزیک نے عصمت فروشی کو اپنا موضوع بنایا۔ جنسی نفسیات میں فرائڈ ہیویلاک ایلس، ہرش فیلڈ، کرافٹ اینبگ نے اہم انکشافات کئے۔ برٹرنڈرسل، ڈی ایچ لارنس، ہنری ملر، سارتر، سمون ربواماسٹرز جانس وغیرہ کے خیالات نے یورپ میں جنسیت کی نئی نئی راہیں واکیں۔ مرزامحمود احمد کی جنسی بے راہ روی کو قارئین کے ذہن کے قریب تر کرنے کے لئے چند ایسے سچے جنسی واقعات درج کئے جاتے ہیں۔ تاکہ مرزاقادیانی کے جنسی واقعات پڑھنے سے قاری کے دل کے کسی گوشہ میں کوئی شک وشبہ پیدا ہوتو وہ دور ہوسکے۔ گو مرزاقادیانی کی جنسی انحرافی میں وہ سنگینی پائی جاتی ہے وہ ان واقعات میں نہیں پائی جاتی۔ لیکن کسی حد تک مماثلت ضرور ملتی ہے۔ زرینہ کا روح فرساحادثہ علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب ’’جنسیاتی مطالعے‘‘ میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔لکھتے ہیں۔ ’’زرینہ… یہ نام فرضی ہے… ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی۔ وہ سرخ اور سفید خوب رو لڑکی تھی اور کئی بھائیوں کی ایک بہن تھی۔ وہ دس برس ہی کی عمر میں بالغ ہوگئی۔ لکھتی ہے: ’’میں دس برس کی عمر ہی میں جوان ہوگئی۔ ان دنوں امی سخت بیمار تھیں اور میری خالہ جو مجھ سے چند سال بڑی ہیں آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے مجھے سمجھایا چند بڑی عمر کی لڑکیوں نے بتایا تھا میں نے امی سے چھپایا مگر انہیں پتہ چل گیا۔ وہ بہت روئیں۔ یقین نہ آیا اور مجھے ایک ماہر انگیز لیڈی (ڈاکٹر کے پاس) (قوسین کے اندر کے الفاظ کتاب میں نہیں ہیں۔ یاتو زرینہ نے ہی نہیں لکھے یا کتابت کرتے وقت کاتب چھوڑ گیا ہے اور پروف ریڈنگ میں بھی رہ گئے ہیں) لے گئیں۔ معائنہ کرایا۔ وہ بھی حیران رہ گئی۔‘‘