احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
بدکرداری کے لحاظ سے موزوں ہے۔ گویہ کتاب اولین ماخذ ہے۔ لیکن کسی سلیقہ سے شائع نہیں ہوئی۔ بہرحال ایک عرصہ تک لوگوں کی توجہ کا مرکز یہ کتاب رہی ہے۔ اس کے بعد شفیق مرزا نے کتاب ’’شہر سدوم‘‘ تحریر کی۔ دیباچہ میں اپنے حالات زندگی (جماعت احمدیہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا۔ سربستہ رازوں کا علم ہونا۔ جماعت سے نکلنا اور مصائب سے دوچارہونا) بیان کئے ہیں۔ یہ دیباچہ مرزا شفیق کی مجاہدانہ زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کتاب ہزاروں کی تعداد میں بک چکی ہے۔ مرزا شفیق نے دلاویز انداز میں واقعات کوبیان کیا ہے۔ علم جنسیت میں بے شمار اصطلاحات کا اضافہ کیا ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے اردو ادب کی بھی خدمت کی ہے۔ پہلی شائع شدہ کتب کی نسبت بدکاری کا زیادہ مواد مہیاکیا ہے۔ اس کتاب کاانٹرنیٹ پر احمدی حضرات مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ مجھ سے خود ایک سابق احمدی مبلغ نے ذکر بھی کیا تھا۔ درپردہ احمدی حضرات اس کتاب کو کثرت سے پڑھتے ہیں۔ لیکن میں بڑی معذرت کے ساتھ یہ لکھوں گا۔مرزامحمود احمد کی سنگین بدکاری کی نسبت سے ’’شہر سدوم‘‘ نام موزوںنہیں۔ مرزا جنس لطیف کے شوقین تھے۔ ہاں ’’سدومیت‘‘ محض ’’منہ کا مزہ‘‘ بدلنے کے کیا کرتے تھے۔ اگر مرزابشیر احمد کے حالات خبیثہ کے متعلق لکھا جارہا ہو تو پھر یہ نام بہت موزوں ہے۔کیونکہ موصوف سدومیت کا’’بادشاہ‘‘ تھا۔ اس کے بغیر اپنی زندگی بے کیف محسوس کرتا تھا۔کیونکہ یہ کتاب موضوع کے لحاظ سے بہترین ہے۔ عوام کی مقبول کتاب ہے۔ اس لئے میں اس کتاب کے اس ’’نقص‘‘ سے صرف نظرکرتا ہوں۔ لیکن جب ایک قاری اس کتاب کو پڑھتا ہے تو ایک شیطان کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ بلکہ یوںمحسوس کرتا ہے کہ وہ خود بھی مرزامحمود کی سنگین محفل میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے بعد متین خالد کی مشہورکتاب ’’قادیانیت اس بازار میں‘‘ کا ذکرکرتا ہوں۔ بڑی محنت اور جانفشانی سے مواد جمع کیا ہے۔ اخبارات میں اچھے تبصرے ہوئے ہیں۔ عوام میں مقبول ہے۔ کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ فاضل مؤلف نے یہ کتاب محض آخرت کے زادراہ کے لئے لکھی ہے۔ پیسہ کمانا مطلوب نہیں۔ احمدیوں کو راہ راست پر لانا مقصود ہے۔ مجھے اس کتاب کے نام پر بھی شکایت ہے۔ فاضل مؤلف نے مرزامحمود احمد کو اس بازار سے تشبیہ دی ہے۔ جب کہ اس بازار کی تماش بینی لذت خواہی مرزامحمود کی سنگین بدکاری سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔ اس بازار کے دھندے کے بھی کچھ قواعد وضوابط ہیں۔مثلاً جب محرم کا مہینہ آئے گا اس بازار کے دروازے بند ہو جائیں گے یا دیگر مذہبی تہوار ہوں تو بھی ان تہواروں کی حرمت کی وجہ سے تماش بینوں کے لئے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ پھر کسبی دروازہ بندکر