احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کے پردہ میں رہ کر لذت خوائے ہم آغوش ہوتی ہے۔ لیکن مرزامحمود احمد کے ہاں حجاب فضول ہے۔ روفو کو سیسل ہوٹل سے اغوا کر کے قادیان لے جایا گیا تو حصول لذت کے وقت اپنی بیٹی کو پاس بٹھا لیا۔ قارئین اندازہ لگالیںگے۔ اس بازار کی مرزامحمودکی رنگین محفل کے ساتھ کیا مناسبت ہے۔ میرے خیال میں خالد متین صاحب نے ’’اس بازار‘‘ کے رہنے والوں کے ساتھ ’’زیادتی‘‘ کی ہے۔ بہرحال یہ کتاب اپنے مواد کے لحاظ سے بہترین کتاب ہے۔لہٰذا کتاب کے نام کو نظر انداز ہی کرنا پڑے گا۔ میں نے اپنی کتاب کا نام ’’ربوہ کا راسپوٹین‘‘ رکھا ہے۔ گو ’’راسپوٹین‘‘ مرزامحمود احمد کے پاؤں کی خاک ہے۔ بدکاری کے لحاظ سے راسپوٹین کی مرزامحمود احمد کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی ماں نے اس سے بڑھ کر بدکار نہیں جنا۔ نہ جنے گی۔ جس کے سامنے کوئی رشتہ بھی حرمت والانہیں۔ مجھے مرزامحمود کی اپنی والدہ کے ساتھ لذت خواہی کی کوئی شہادت نہیں ملی۔ جوملی ہیں وہ ثقہ نہیں لیکن اپنے گھرانے اور رشتے داروں کی کوئی عوت اور بچہ اس کی گرفت سے نہیں بچ سکا۔ اب میں عبدالمنان عمر سے رجوع کروں گا۔ ممکن ہے وہ کچھ روشنی ڈال سکیں۔ میں نے راسپوٹین کی نسبت سے اس لئے کتاب کا نام رکھا ہے۔ راسپوٹین دنیا کی ادبیات میں بدکاری کی ایک علامت ہے۔ میں آخر میں احمدی حضرات کی خدمت میں درخواست کروں گا۔ مجھے مرزامحمود احمد سے کوئی بیر نہیں۔ تمہارا دل دکھانا مطلوب نہیں۔ بڑی سوچ بچار کے بعد اس فیصلہ پر پہنچاکہ سابقہ کتب کے مواد کے علاوہ جو میرے پاس مواد ہے وہ بھی احاطہ تحریر میں آجائے۔ خصوصاً ڈاکٹر مبشر احمد ابن ڈاکٹر منور احمد ابن مرزامحمود احمد کے ساتھ سدومیت ولواطت کاواقعہ۔ یہ دل ہلادینے والا واقعہ ہے۔ میں نے کتاب کو ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ جب کہ دیگر مؤلفین نے یہ رنگ اختیار نہیں کیا۔ بہرحال پہلی کتب اپنی جگہ، یہ کتاب اپنی جگہ۔ مزید اضافوں کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ آخر میں اپنی گذارشات کو اس قسم کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔ ’’میں اس واحد قہار کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں، مردودوں اور فاسقوں کا کام ہے۔ میںخدائے عزیز کو حاضرناظر جان کر کہتا ہوں کہ مرزامحمود احمد پرلے درجہ کا بدکار تھا۔ اگر کوئی اس کا رشتہ دار یا احمدی مباہلہ کے لئے تیارہوتو وہ پروپرائٹر علم وعرفان اردو بازار، لاہور سے رابطہ قائم کرے۔‘‘ والسلام! رفیق طاہر