احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اس اعلان کے شائع ہونے کی دیر تھی خلیفہ گھبرا گئے اور آج اس دعوت مباہلہ اور حلف مؤکد بعذاب کو اٹھاتے ہوئے پورا ڈیڑھ سال ہوچکا ہے۔ مگر وہ آج تک اس دعوت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ صرف حیلوں بہانوں سے کام لے رہے ہیں۔ ایک طرف تو مکرم ومحترم محمد یوسف ناز اس حلف کے بعد خداتعالیٰ کے انعامات کے وارث بن چکے ہیں۔ پورے نو سال میں خداتعالیٰ نے جب کہ وہ خلیفہ کے مرید بھی تھے۔ اولاد عطا نہ کی مگر اس حلف کے بعد خلیفہ سے علیحدگی اختیار کر لینے پر خدائے رحیم وکریم نے ان کو اولاد نرینہ سے نوازا تو دوسری طرف اس جھوٹے مصلح موعود کو خداتعالیٰ نے یہ توفیق نہ دی کہ سچائی کے دعویدار ہوتے ہوئے بھی موت کی تمناکرتے۔ اگر محترم یوسف ناز کا بیان جھوٹا تسلیم کیا جائے تو اے احمدیو! خداتعالیٰ کے اس فیصلہ کو بھی جھوٹا اور غلط کہنا پڑتا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ جھوٹا کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کرتا۔ جھوٹا ہوکر موت کی تمنا کرنا خدا کے فیصلہ کے سراسر خلاف ہے۔ آپ یوسف ناز کو جھوٹا کہہ کر قرآن کو نعوذ باﷲ جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ اگر یوسف ناز جھوٹے ہوکر بھی موت کی تمنا کر رہے ہیں تو اس کے برعکس مرزامحمود احمد بقول آپ کے سچے ہوتے ہوئے بھی موت کی تمنا کیوں نہیں کرتے۔ کیا موت کی تمنانہ کرنا اس کی سچائی کی دلیل ہے یا جھوٹے ہونے کی۔ آپ لوگ اسی آیت کو پیش کر کے اپنی سچائی منوایا کرتے تھے۔ مگر جب اپنی باری آئی تو اس قرآنی اصول ہی کو غلط قرار دیا جارہا ہے۔ آپ لوگوں کے لئے یہ امر نہایت درجہ مشکل ہے کہ مرزامحمود احمد کو جھوٹا قرار دیں یا ان کو حلف مؤکد بعذاب کے ذریعہ موت کی تمنا کرنے پر مجبور کریں۔ مگر خداتعالیٰ کے طریقے بھی نرالے ہیں۔ خلیفہ موت کی تمنا نہیں کرتے تو نہ کریں۔ خداتعالیٰ کی گرفت میں وہ ۱۹۴۴ء سے آ چکے ہیں۔ انہوں نے مصلح موعود کا دعویٰ ایک خواب کو پیش کر کے حلفیہ بیان کے ساتھ کیا۔ (گو وہ مؤکد بعذاب حلف نہ تھی) مگرتاہم خداتعالیٰ کے نزدیک ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے یہ قسم ہی کافی تھی۔ چنانچہ وہ آج کل مندرجہ ذیل خدائی عذاب کا شکار ہیں۔ ۱… اوّل! ان کو قادیان کی مقدس بستی سے نکال دیاگیا اور وہ بھیس بدل کر لاہور آگئے۔ یہ وہ بستی تھی کہ جس کے نام کی بدولت انہوںنے جماعت احمدیہ کو گمراہ کرنے کی مکمل کوشش کی اور جس کی مقدس سرزمین میں وہ پسر نوح ہوتے ہوئے بھی بہشی مقبرہ میں دفن ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے اور قادیان کی سرزمین بھی ان ہی کی بے اعتدالیوں اور بے راہ رویوں کی بدولت پاکستان سے چھن گئی۔ اگر ’’یہ لوگ زندگی کے فیشن سے دور نہ جاپڑتے‘‘ تو کوئی وجہ نہ تھی کہ قادیان پاکستان سے الگ کیاجاتا۔