احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کے بطن سے ایسی بجلیاں نکل رہی ہیں۔ جن سے نظر بظاہر احمدیت کا نشیمن خطرے میں ہے۔ چونکہ ارباب اقتدار نے مقدس مشن کو اپنی آرزؤں اور امنگوں کا تابع مہمل بنادیا ہے۔ اس واسطے اس محرک اور متحرک سلسلہ پر جمود اور خمود طاری ہے۔ اس لئے دلسوزی کا تقاضہ تھا کہ ان کے افکار وافعال کو کاغذی پیرہن میں پیش کیا جائے تاکہ ’’سائت مستقراً ومقاماً‘‘ اور ’’حسنت مستقراً ومقاماً‘‘ میں تمیز نمایاں ہو جائے۔ جس طرح قمرالانبیاء والے الہام سے ان لوگوں نے اب توبہ کر لی ہے۔ وہ مصلح موعود والے الہام کی عظمت اور عصمت کا خیال کرتے ہوئے اس کو اس ’’وجود قدسی‘‘ پر چسپاں نہ کریں۔ جو ایک طویل عرصے سے موت اور زندگی کے برزخ میں ہے۔ لیکن بو قلموں پروپیگنڈے کے بل بوتے پر ان کے احبار ورہبان نے اس عظیم الشان الہام کو ایک ایسے نقش پر چسپاں کر رکھا ہے جس کی اپنی ہوش کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ اس کے اجالے داغ داغ۔ اس کی سحر شب گزیدہ اس کی خلوتیں اس کی جلوتوں سے خائف اور جلوتیں اس کی خلوتوں سے ہراساں تھیں۔ لیکن اب جب کہ وہ معمولی بشری تقاضوں کو پورا کرنے سے بھی عاجز ودرماندہ ہے اور خود جماعت نے ہونے والے خلیفہ کے ایماء پر اس کو معذور سمجھ کر عملاً معزول کر دیا ہے۔ اس کو مسیح موعود کے الہاموں کا مصداق مانتے چلے جانا ان کو ’’الفضل ‘‘ کے الفاظ میں ہنسی کا نشانہ بنانا ہے۔ کیا مسیح موعود (مرزا) نے ایسے ہی آدمی کے لئے پیش گوئیاں کی تھیں؟ یا کیا اب اﷲتعالیٰ نے دنیوی حکومتوں کی طرح اس کو سولہ سال کے بعد ریٹائر کر دیا ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر ایک عامی بھی فیصلہ کر سکتا ہے کہ حق پوش کون ہے اور حق کوش اور خادم دین کون؟ ’’الفضل‘‘ نے اپنے آقائے ولی نعمت کے نقش قدم پر چل کر ’’مصلح موعود‘‘ کے علمی ودینی اور تبلیغی کارناموں کا ذکر کیا ہے۔لیکن نہ اس نے کبھی پہلے تفصیل دی ہے نہ اب۔ اگر واقعی کوئی نیک کارنامہ سرانجام پایا ہے تو خدا جو ذرہ نواز ہے وہ مصلح موعود کو ان کی دعا کے مطابق ان کو کام کرنے والی زندگی عطاء کرتا، نہ کہ ایسے امراض میں مبتلاکر دیتا جن کو اس کے مسیح نے خبیث امراض قرار دیا ہے۔ کیا خدا کو اپنے دین کی خدمت عزیز نہ تھی؟ اگر خلافت ربوہ ’’شاخ مثمر ہوتی تو باغبان اس کو کبھی خشک نہ ہونے دیتا۔ اس کے اثبات میں ہمارے سامنے مسیح موعود کی درخشندہ سنت موجود ہے جنہوں نے اپنی بیماریوں کے باوصف اعداء کو یہ چیلنج دیا تھا ؎ اے آنکہ سوئے من بہ دویدی بصد تبر از باغباں بترس کہ من شاخ مثمرم مامور کی مسیحی شان کا تقاضا ہے کہ اس کے مشن کا حامل اور عامل نکما ہو کر نہ رہ جائے۔ ان کو خود آخری عمر میں انوار الشباب سے خدا نے نوازا۔ ان کی آنکھوں کو اپنے نور سے منور کیا۔ اسی