احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
بعنوان ’’ذکر حبیب‘‘ کے موقعہ پر ایک ہمہ گیر شہرت والے احمدی صدر نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ ان کو قمر الانبیاء کی تقریر کی صدارت کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ اس وقت صاحبزادہ صاحب نے اس اعلان کی نفی نہیں کی تھی۔ بلکہ مصداق بنے بیٹھے رہے۔ جب راقم الحروف نے احتجاج ملیح کیا تو اس پر الفضل نے یہ فرمایا: ’’اگر تمہاری خوشی اور تمہارے دل کی تسلی اسی میں ہے تو تم بے شک اس الہام کو کالے چور پر چسپاں کر لو۔ مگر خدا کے لئے مسیح موعود کے ایک الہام کو ہنسی کا نشانہ نہ بناؤ۔‘‘ گویا اولاد مبشرہ پر اطلاق سے تو اس الہام کی تضحیک ہوتی ہے اور کالے چور پر چسپاں کرنے کی ’’الفضل‘‘ نے کھلی چٹھی دے دی ہے۔ ’’دراز دستی کوتاہ آستیناں بیں‘‘ اگر پہلی بات ہے تو اس کے مجرم ارباب ربوہ (چناب نگر) اور ان کے احبار ورہبان ہیں۔ جنہوں نے قمر الانبیاء والے الہام کو صاحبزادہ صاحب پر چسپاں کئے رکھا۔ اب کالے چور پر اطلاق کے خلاف ان کو کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا۔ یہ تقابل کتنا لچر اور اذیت ناک ہے۔ عجب تربات یہ ہے کہ اب صاحبزادہ صاحب کو اپنے مصداق ہونے میں اس عظیم الشان الہام کی تحقیرنظر آنے لگی ہے۔ لیکن ان کے نزدیک کالے چور کی پھبتی سے استخفاف کا کوئی اذیت ناک پہلو نہیں نکلتا۔ ان کے توقیر کے پیمانے دنیا سے نرالے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۵۹ء میں برادر اکبر کے روز افزوں جنون کی پردہ داری کرنے میں نسیان کا نبوت سے ناطہ جوڑا، صلح حدیبیہ کو شدید ہزیمت قرار دیا۔ حالانکہ ازروئے قرآن کریم سرورکائنات کی یہ فتح مبین تھی۔ اس ذریت طیبہ نے مسیح موعود کی پہلی اہلیہ کو ’’پھجّے کی ماں‘‘ کہہ کر احمدیت کا مؤرخ ہونے کا لقب پایا۔ الفضل نے میرے مضمون کو ناپاک قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس میں مسیح موعود کی عظمت اور رفعت اور ان کے مشن کے تقدس کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خلیفہ اوّل کی بزرگی اور برتری کا تذکرہ ہے۔ کیونکہ جادوئے محمود کی تاثیر سے اسی فلک پیما بزرگ اور فقید المثال عالم کے ایمان افروز محاسن جماعت سے اوجھل ہوکر جماعت کے سواد اعظم میں تیرگی اور خیرگی کا سماں پیدا کر رہے ہیں۔ ایسے تذکرے کو ناپاک کہنا زیغ نظر غشاوۃ بصر اور وقر اذان کا دردناک مظاہرہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب قادیانی جماعت میں خلیفہ اوّل کا ذکرکرنا ایسا ہی ہے جیسے قبرستان میں کوئی آذان دے۔ میرا مضمون ان کے لئے آئینہ حقیقت نما ثابت ہوا۔ انہوں نے اس کو ناپاک کہہ دیا جس طرح ایک زنگی نے آئینے میں اپنی شکل دیکھتے ہی اس کو ناپاک کہہ کر پھینک دیا تھا۔ اب میں یہی کہہ سکتا ہوں ؎ یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور میرے مضامین کی محرک ایک بات ہے وہ یہ کہ اب ربوہ (چناب نگر) میں فکر گستاخ