احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور کس جماعت نے اس تعلق کو سیاست کے تابع رکھ کر اس کی اہانت کی ہے۔ ۱۹۵۴ء میں بقول قمرالانبیاء جو خطرناک آگ مشتعل ہوئی۔ اس میں کس کا ایمان راکھ ہوا۔ کس نے جان بچانے کے لئے عقائد کا سودا کیا سینکڑوں احمدی اس پاداش میں جماعت سے خارج ہوکر امام الزمان کی غلامی سے محروم ہوئے کہ انہوں نے مصلح موعود کے تجویز کردہ عقائد سے سرمؤ انحراف کیا تھا۔ لیکن جب اپنے تسلیم کرنے کا موقعہ آیا تو محض اندیشہ ہائے دور دراز سے مرعوب ہوکر ان کی منسوخی کا اعلان کر دیا ؎ یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا خدا گواہ ہے کہ مکرم خلیفہ صاحب کی بیماری پر ہم میں سے کسی کو کوئی انتقامی خوشی نہیں۔ یہ شیوہ وشعار ارباب ربوہ (چناب نگر) کا ہے کہ وہ مخالفین کی مرض اور مرگ سے گوناں مسرت حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلافتی نظام کے انکار کی پاداش میں لوگ مرض اور موت سے دوچار ہوتے ہیں۔ چونکہ خلیفہ صاحب مکرم نے ایک دعویٰ کیا اور خدائے قہار سے جھوٹا ہونے پر سزا کی استدعا کی۔ اس لئے ان کی موجودہ بیماری جب کہ وہ دینی اور دنیوی امور میں قیادت کے ابتدائی فرائض ادا کرنے سے قاصر وعاجز ہیں۔ ایک فرقانی پہلو رکھتی ہے۔ جناب ’’قمر الانبیاء‘‘ اور ان کے ہمنواؤں کو اس بصیرت افروز بیماری پر پردہ ڈالنے کے لئے اس علم الکلام کا سہارا نہ لینا چاہئے۔ جس سے آتھم اور ڈوئی کا انجام مشتبہ ہوکر رہ جائے۔ کیونکہ ان کے پیروکار آج تک یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ان پر کوئی آسمانی تعزیر نازل ہوئی۔ آخر ڈاکٹر ڈوئی مسیح موعود کے قول مبارک کے مطابق فالج گرنے کے بعد تختے کی مانند سٹیج پر لایا جاتا تھا اور وہ بھی دستخط تو کر لیتا ہوگا۔ اس کی سزا تو یہ تھی کہ فالج کے بعد وہ کچھ نہ کر سکا۔ جس کی پاداش میں اس پر یہ عذاب نازل ہوا تھا۔ پیش گوئی میں مصلح موعود کو ’’مظہر الحق والعلیٰ کان اﷲنزل من السماء‘‘ کہاگیا۔ نیز یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ خدا اس کو اپنے عطر سے ممسوح کرے گا۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی پیش گوئی کا مصداق کسی ایسی مرض میں مبتلا ہو جائے۔ جس سے وہ بالکل ناکارہ ہوکر رہ جائے۔ جو نفس قدسی خدا کے عطر سے ممسوح ہوگا۔ کیا وہ ذہول اور نسیان کا شکارہوسکتا ہے جو آسمان سے اس واسطے نازل ہو کہ خدا کے دین کا بول بالا کرے۔ کیا یہ گوارہ ہوسکتا ہے کہ وہ بے چینی اور بے قراری کی نذر ہوکر رہ جائے۔ ویسے تو قمر الانبیاء نے ایک مضمون میں اعلان کر دیا تھا کہ نسیان نبوت کے منافی نہیں ہے۔ حالانکہ نبوت سے نسیان کے امکان کی بھی نفی ہو جاتی ہے۔