احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
لئے جو کچھ اس کے خلاف لکھا گیا صریحاً ناروا تھا۔ راقم الحروف کے مضمون کا مفاد صرف اتنا ہے کہ مسیح موعود کی تعلیم کا صحیح چہرہ اب افق پر ابھر رہا ہے۔ جس قوت نے مؤکد بعذاب قسمیں اٹھا اٹھا کر آپ پر افتراء باندھے اور دعویٰ الہام کے ماتحت مصلح موعود کے منصب پر تسلط جمایا۔ وہ اب بطش شدید گرفت میں ہے۔ جب ۱۹۴۴ء میں مکرم خلیفہ صاحب نے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو انہوں نے اور ان کی جماعت نے سمجھ لیا کہ اب جماعت لاہور اور اس کا مسلک ہباء منثورا ہو جائے گا۔ چونکہ یہ خانہ ساز بات تھی اور خدا کی طرف منسوب ہورہی تھی۔ اس کے نتائج کے رونما ہونے کے لئے ایک معیاری میعاد کی ضرورت تھی۔ وہ ہے ۲۳سال۔ یہ اس لئے کہ حضرت سرور کونینﷺ دعویٰ رسالت کے بعد ۲۳سال تک رونق بزم حیات رہے۔ اسی طرح مفتری کہنے والوں کی ضلالت عریاں ہوئی۔ اب ’’قمرالانبیاء‘‘ نے اس مسلمہ مسئلے سے بھی روگردانی فرمائی ہے اور فرماتے ہیں کہ چونکہ مصلح موعود اپنے دعویٰ کے بعد پندرہ سال کے اندر مبتلاء مرض نہیں ہوئے۔ اس واسطے ان پر قرآنی دفعہ قطع وتین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ پندرہ سال کی میعاد پر اصرار، بوکھلائے ہوئے دماغ کا کرشمہ ہے۔ کیونکہ اس کی تائید میں کوئی سند نہیں پیش کی گئی۔ محض تربص وامہال کے عقیدہ سے انکارکر دیا ہے۔ ’’قمرالانبیاء‘‘ نے مصلح موعود کی موجودہ مرض سے پہلے پندرہ سالوں کو مبارک دور قرار دیا ہے۔ اس دور میں جو برکات نازل ہوئیں ان میں پہلی برکت تو یہ ہے کہ مصلح موعود خود قادیان سے پاکستان خیریت سے پہنچے۔ لیکن وہ کیا دعویٰ کرنے کے بعد قادیان سے آئے اور کس روپ میں تشریف لائے۔ برکت کے اس پہلو کو اجاگر کرنا مکرم مضمون نگار بھول گئے ہیں۔ پھر انہیں پندرہ سال میں انہوں نے تبلیغ احمدیت سے دستبرداری کا اخبارات میں اعلان کیا۔ ایک روایت کے مطابق ایک اسلامی جماعت کے لیڈر سے بالواسطہ استفسار کیا کہ وہ اپنے عقائد میں کتنی ترمیم کریں کہ مسلمان مطمئن ہو جائیں۔ اسی دور مسعود میں احمدیت کی اصطلاح کو ساقط کرنے کے ارادہ کا اعلان بھی ہوا۔ تاکہ حکومت وقت اور علماء خوش ہوجائیں۔ پھر غیر معمولی نصرت کا اور پہلو یہ بھی ہے کہ عدالت میں اعلان کیا کہ مسیح موعود کا ماننا جزو ایمان نہیں ہے۔ اس اعلان کے بعد بھی یہ کتنا اضحوکۂ روزگار دعویٰ ہے کہ جماعت قادیان کو جو ایمان اور محبت مسیح موعود سے ہے وہ جماعت لاہور کو نہیں۔ حالانکہ موخر الذکر جماعت نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ مسیح موعود کو ماننا ضروری نہیں۔ اب قمر الانبیاء خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ کس جماعت کا مسیح موعود