احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
برتری اور افضلیت پر مضمون شائع کر کے اپنی جان بخشی کا سامان کرے۔ جب انکارہوا تو اس سے اپنی سختی کے لئے جواز نکالا گیا۔ اوّل تو خلیفہ اوّل کی کوئی یادگار قائم نہیں ہوئی جو تھی نور ہسپتال تھا۔ ربوہ (چناب نگر) میں اس کا فضل عمر ہسپتال کے نام سے احیاء کیاگیا۔ قمر الانبیاء کو خوب یاد ہوگا کہ جب جماعت کی طرف سے اس دلآزار ترمیم پر استفسار ہوا تو مصلح موعود نے کس لب ولہجے میں خلیفہ اوّل کے متعلق بات کی۔ پھر مولوی صاحب کی شان میں ایک سالانہ جلسے میں گہر باری کی۔ اس سے عیاں ہے کہ یہ لوگ مولوی صاحب کو جماعت میں کیا درجہ دیتے ہیں۔ حالانکہ مسیح موعود نے خلیفہ اوّل کو عبقریٌّ کہا ہے۔ میر محمد اسحاق مرحوم کی روایت ہے کہ حضور کی زندگی میں مولوی صاحب سخت بیمار ہوئے۔ مرض نے مہلک صورت اختیارکر لی۔ حضور خود علاج کرتے تھے۔ جب کوئی فائدہ نظر نہ آیا تو اماں جان نے رقت کے لہجے میں حضور سے کہا کہ وہ دعا کریں کہ مولوی عبدالکریم کے بعد یہ سلسلے کے بڑے ستون ہیں۔ اس میں کوئی تقابل کا پہلو نہ تھا۔ پھر بھی مسیح موعود نے فرمایا کہ مولوی نورالدین ہزار مولوی عبدالکریم سے بھی بڑا ہے۔ کسی مرشد نے اپنے مرید کی وہ تعریف نہیں کی جو امام الزمان نے مولوی نورالدین کی کی ہے۔ کیا میاں محمود احمد اور ان کے برادر خور دنے اس کیفیت کو کبھی پیش نظررکھا؟ مسیح موعود احمدیت کی روح تھے اور مولوی صاحب اس کی ضمیر، وہ ایک بارش کے قطرے کی طرح دریائے مغفرت میں گرے۔ اپنی بے بضاعتی کا اقرار کیا۔ اس انکسار پر آسمانی صدف نے اپنی آغوش کو وا کردیا اور یہ قطرہ درّشہوار بن کر احمدیت کی زینت بن گیا۔ لیکن اس کے بعد ان کی تصانیف کو نسیاً منسیاً کیاگیا۔ پھر یہی عتاب ان کی صلبی تصانیف پر نازل ہوا۔ اس پر بھی دعویٰ ہے کہ مولوی صاحب کو اپنا محبوب امام تسلیم کرتے ہیں اور جماعت لاہور کے خلاف گلہ ہے کہ وہ مرکز سے ہٹ گئی ہے اور بزرگوں کا احترام نہیں کرتی۔ کھلی ہوتی ہیں آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں خلافتی استبداد کے ماتحت مسیح موعود کے دعاوی کی تحریف کی گئی۔ایک آہنی آمرانہ نظام کی تخلیق ہوئی۔ جس کے بل بوتے پر خاص قسم کے عقائد کو منوایا گیا۔ چونکہ سکہ رواں تھا۔ مصلح موعود کے دعویٰ کا اعلان بھی ۱۹۴۴ء میں ہوگیا۔ لیکن تقریباً نصف صدی کے بعد نبوت سے تدریجاً انکار شروع ہوگیا۔ اب انہی تحریروں کو پیش کیا جاتا ہے جو ۱۹۱۴ء سے جماعت لاہور پیش کرتی رہی ہے۔ تکفیر سے بھی دست کشی بڑے زوروں سے شروع ہے۔ اب مسلمانوں کے اسلام کو بھی تسلیم کیاجارہا ہے۔ کیا اس تغیر وتبدل سے جماعت لاہور کے عقائد کی سرخروئی ثابت نہیں ہوتی۔ اس