احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مرزابشیراحمد نے جو کچھ لکھا وہ بروایت ’’الفضل‘‘ مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۶۱ء میں حسب ذیل ہے: ’’باقی رہا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی موجود بیماری کا سوال سو حضرت میاں صاحب موصوف نے اپنے اس مضمون میں یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ یہ ایک بشری لازمہ ہے جو حضور کی مظفر ومنصور زندگی اور نصرت من اﷲ کے مقام کو ہرگز مشکوک نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ یہ بیماری بھی پندرہ سولہ سال کی ایسی شاندار اور کامیاب زندگی کے بعد آئی ہے جو ہر بدباطن معاند کا منہ بند کرنے کے لئے کافی ہے۔‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مرزابشیراحمد کے نزدیک خلیفہ صاحب کی موجودہ بیماری ایک بشری لازمہ ہے اور ان کی پندرہ سولہ سال کی شاندار کامیاب زندگی کے ہوتے ہوئے ’’لو تقوّل… الخ‘‘ کی آیت کے ماتحت خدائی گرفت کا نتیجہ نہیں۔ لیکن مسیح موعود کی تحریرات کو اگر بغور پڑھا جائے تو ان سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ ایک سچے ملہم اور مامور کی شاندار اور کامیاب زندگی کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے دعویٰ ماموریت پر کم ازکم تیئس سال کا عرصہ گذر چکا ہو۔ چنانچہ اربعین نمبر۳ ص۸، خزائن ج۱۷ ص۳۹۳ میں آپ لکھتے ہیں: ’’ہزارہا نامی علماء اوراولیاء ہمیشہ اسی دلیل کو کفار کے سامنے پیش کرتے رہے اور کسی عیسائی یا یہودی کو طاقت نہ ہوئی کہ کسی ایسے شخص کا نشان دے جس نے افتراء کے طور پر مامور من اﷲہونے کا دعویٰ کر کے زندگی کے تیئس برس پورے کئے ہوں۔‘‘ لیکن آج مرزابشیراحمد کے نزدیک تیئس برس کی میعاد مدعی ماموریت کے لئے ضروری نہیں۔ کامیاب زندگی کے سولہ سترہ سال بھی کافی ہیں۔ اس کے بعد اگر مدعی ماموریت کسی ایسی بیماری میں پکڑا جائے جس کو مسیح موعود نے خبیث مرض اور دکھ کی مار قرار دیا اور جس کے لاحق ہونے پر آپ نے ڈوئی کے خاتمہ کو انجام بدقرار دیا تو مرزابشیراحمد کے نزدیک یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو خدائی گرفت کہا جاسکے۔ بلکہ یہ محض لازمۂ بشریت ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو مسیح موعود کے مندرجہ بالا بیان کو آپ کیا کہیں گے اور ڈوئی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا اس کا مفلوج ہونا بھی لازمہ بشریت ہی ہے؟ اور مسیح موعود نے جو اس مرض کو اس کے مفتری علیٰ اﷲ ہونے کی دلیل ٹھہرایا تھا۔ یہ صحیح نہیں؟ پھر ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ کسی ایسے صادق مامور من اﷲ کی مثال پیش کر سکتے ہیں جس کو دعویٰ ماموریت کے بعد اس قسم کی امراض لاحق ہوئی ہوں؟ اگر ایک بھی مثال آپ پیش نہیں کر سکتے اور نہ مسیح موعود کی کھلی تحریرات اس کی مؤید ہیں تو خلیفہ کی مرض کو لازمۂ بشریعت قرار دے کر ٹال دینا کہاں تک صحیح ہوسکتا ہے؟