احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
رسالہ ’’انصار اﷲ‘‘ ربوہ ماہ نومبر میں نظر سے گزرا اور تو لکھیں تو تعجب کی بات نہیں ۔ کیونکہ وہ لوگ خلیفہ صاحب ثانی کی ذات بے برکات سے ناواقف ہیں۔ آپ کوتو آپ کی زوجہ محترمہ سکینہ بیگم نے آج سے کئی سال پہلے خلیفہ صاحب کی ناپاک زندگی سے آگاہ کردیا تھا۔ کاش کہ آپ نے اپنی بیوی سے پوچھ لیا ہوتا۔ خلیفہ صاحب کے روحانی فیوضات کیا ہیں؟ آپ خدا کو کیا جواب دیں گے۔ خدا کے لئے تدبیر سے کام لیں اور ایک ناپاک گندے، بدکار آدمی کو قرآنی آیات کا مصداق نہ ٹھہرائیں۔ قرآن کی تضحیک سے رک جائیں اور اپنی بیوی کی شہادت پر اعتبار کریں۔ عبدالرحمن! بلاک نمبر۴، ڈیرہ غازی خان، مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۶۶ء خط نمبر:۱ … بجواب عبدالرحمن بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم! مرزاعبدالحق ایڈووکیٹ کوٹھی نمبر۶، انکم ٹیکس روڈ سرگودھا چھاؤنی مکرمی السلام علیکم! میں مشرقی پاکستان گیا ہوا تھا۔ وہاں سے واپس آکر آپ کا خط ملا۔ اگر اﷲتعالیٰ کسی کو نور فراست دے تو میرے مضمون سے سدھر سکتا ہے کہ الزامات جو حضور کی ذات بابرکات پر لگائے جاتے ہیں، درست نہیں۔ ہم خدا کے فضل سے اہل غرض نہیں ہیں۔ بلکہ سینکڑوں روپے ماہوار چندہ دیتے ہیں اور نصف سے زیادہ وقت خدمت دین کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ (جو محض اﷲتعالیٰ کا فضل اور احسان ہے) اگر ان میں سے کوئی بات بھی درست ہوتی تو تعلق اخلاص ممکن نہ ہوتا۔ ہم نے اس شخص کو دیکھا اور خوب گہرے طور پر دیکھا۔ وہ ایک نہایت قیمتی موتی تھا۔ لیکن پھر بھی ٹھوکر کھانے والوں نے ٹھوکر کھائی۔ یہ ان کی عقل اور فہم اور دینی حس کا قصور تھا۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر وہ نعوذ باﷲ ایسا ہی تھا۔جیسا کہ وہ لوگ سمجھتے رہے تو اس کو اتنے میٹھے پھل کیسے لگ گئے۔ اگر میں اس درخت کے پھل گنواؤں تو یہ جگہ کافی نہ ہوگی۔ اﷲتعالیٰ نے اس کو برکت بخشی اور ہر طرف سے بخشی۔ اس پر بدظنی کرنے والے نور ایمان سے محروم رہیں گے۔ اﷲتعالیٰ کا یہی قانون ہے۔ میں نے اس خیال سے یہ چند حروف لکھے ہیں کہ شاید یہ آپ کی ہدایت کا موجب ہوں۔ ورنہ میں اس کے جواب کی طرف مائل نہ ہوتا۔ والسلام! عبدالحق، امیر جماعت احمدیہ سابق صوبہ پنجاب وبہاولپور!