تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس ہمت افزائی نے عیسائیوں کے حوصلوں کو بہت بلند کر دیا۔ چنانچہ ایک مجلس مشورت فرانس میں منعقد ہو کر یہ قرار پایا کہ ریاست گاتھک مارچ کی حدود میں برشلونہ کے بندرگاہ کو بھی ضرور شامل کر لیا جائے۔ برشلونہ کا عامل زید بھی شارلیمین اور کونٹ لوئی سے خط و کتابت رکھتا اور ان کی طرف داری کا اقرار کر چکا تھا۔ چنانچہ ۱۸۸ھ کے آخر ایّام میں عیسائی فوجیں گاتھک مارچ کی فوجوں کے ساتھ شامل ہو کر اندلس کے مشرقی و شمالی صوبہ کو پامال کرتی ہوئی برشلونہ تک پہنچیں۔ یہاں کے عامل زید نے ان فوجوں کے آنے پر برشلونہ کے دروازوں کو بند کر لیا اور عیسائیوں کے قبضے میں دینے سے صاف انکار کر دیا۔ عیسائی افواج نے برشلونہ کا محاصرہ کر لیا۔ عیسائیوں نے برشلونہ کے مضافات کو تباہ و برباد کر کے محاصرہ میں سختی سے کام لیا۔ زید کو کوئی امداد کسی طرف سے نہیں پہنچی۔ آخر برشلونہ پر عیسائیوں نے اس شرط کے ساتھ قبضہ پا لیا کہ وہ مسلمانوں کو وہاں سے اپنے اسباب منقولہ کے ساتھ نکل جانے دیں گے۔ مسلمانوں نے برشلونہ کو خالی کر دیا‘ عیسائی فوجیں اس میں داخل ہو گئیں اور شاہ ایکیوٹین نے قلعہ برشلونہ کو خوب مضبوط کر کے وہاں ایک گورنر مقرر کر دیا۔ یہ نو مفتوحہ تمام علاقہ گاتھک مارچ کی ریاست میں شامل ہو گیا۔ اسلامی فوجوں کے لیے شمالی اندلس میں اب دو محاذ جنگ قائم ہو گئے۔ ایک ریاست ایسٹریاس اور صوبہ جلیقیہ کی سرکش عیسائی آبادی کا جن کو فرانس کی جانب سے برابر امداد پہنچتی رہتی تھی۔ دوسرا گاتھک مارچ اور برشلونہ کے علاقے کے باغی عیسائی رعایا کا جن کو بھی فرانس کی جانب سے امداد پہنچ رہی تھی۔ ادھر جنوب میں شازشوں کا جال پھیلا ہوا تھا اور مسلمان مولویوں نے نہایت سخت مشکلات پیدا کر دی تھیں۔ فوجیں جو عیسائیوں کی مدافعت کے لیے روانہ کی گئیں وہ کسی ایک ہی محاذ پر عیسائیوں کے مقابلہ میں مصروف رہ سکتی تھیں۔ چنانچہ صوبہ جلیقیہ کی طرف جا کر انھوں نے عیسائیوں کو ہزیمت دی تو دوسرا محاذ خالی رہا اور برشلونہ قبضہ سے نکل گیا۔ اسی طرح اگر وہ برشلونہ کی طرف متوجہ ہوتیں تو سرقسطہ و جلیقیہ وغیرہ پر عیسائیوں کا قبضہ قائم رہتا اور وہ مزید پیش قدمی کرتے۔ ۱۸۹ھ میں اندلس کے مسلمان باغی عاملوں نے عیسائیوں کو ترغیب دے کر طیطلہ پر حملہ کرایا۔ عیسائیوں نے برشلونہ اور شمالی شہروں سے طیطلہ کی طرف حرکت کی ادھر یوسف بن عمر نے مدافعت پر مستعدی ظاہر کی آخر عیسائیوں نے طیطلہ کا محاصرہ کر لیا اور شہر طیطلہ کا محاصرہ کر لیا اور شہر طیطلہ اور اس کے نواح کی عیسائی آبادی نے حملہ آوروں کے لیے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچا کر یوسف بن عمر طیطلہ کو عیسائیوں کے ہاتھ میں گرفتار اور عیسائیوں کا طیطلہ پر قبضہ کرا دیا۔ عیسائیوں نے یوسف بن عمر کو صخرئہ قیس میں قید کر دیا اور ملک اندلس کے قدیمی دارالسلطنت پر قابض ہو کر بے حد مسرور ہوئے۔ طیطلہ کی خبر یوسف بن عمر کے باپ عمر بن یوسف کو پہنچی تو وہ سرقسطہ کی جانب سے ایک جرار فوج لے کر طیطلہ کی جانب چلا۔ یہاں آ کر معرکہ عظیم کے بعد طیطلہ کو فتح کیا یوسف بن عمر کو آزاد کرایا اور عیسائیوں کو وہاں سے مار بھگایا۔ طیطلہ پر عیسائیوں کا قبضہ کرانے میں باشندگان طیطلہ نے جن میں زیادہ تر عیسائی ہی تھے زیادہ مئوثر کوشش کی تھی۔ لہٰذا سب سے زیادہ عتاب و عذاب کے مستحق عیسائیان طیطلہ ہی تھے۔ جنھوں نے طیطلہ کی حکومت کو بے حد مخدوش بنا رکھا تھا۔ مگر عمر بن یوسف نے نہایت دور اندیشی اور ہوشیاری سے کام لے کر ان