تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو آزاد کرا دیا تھا۔ سلطان ہشام ایک مکان خریدنا چاہتا تھا اور اس مکان کے مالک سے گفتگو ہو رہی تھی‘ اسی اثناء میں سلطان کو معلوم ہوا کہ اس مکان کے قریب رہنے والا ایک شخص اس مکان کو خریدنا چاہتا ہے مگر وہ سلطان کی وجہ سے اس مکان کی خریداری کے ارادے کو ترک کر چکا ہے‘ یہ سن کر سلطان ہشام نے اس مکان کو نہیں خریدا۔ سلطان ہشام نے ایسے تجربہ کار اور دین دار لوگ مقرر کئے تھے‘ جو صوبوں کے عاملوں کے طرز حکومت‘ عدل و انصاف اور دفاتر کی جانچ پڑتال کرتے اور ہر ایک صوبہ میں جا کر وہاں کی رعایا سے وہاں کے حاکموں کے متعلق شکایات سنتے تھے۔ سلطان ہشام کے عہد حکومت میں قرطبہ کے اندر وہاں کے امیروں اور مال دار لوگوں نے بڑی بڑی خوبصورت اور عظیم الشان عمارتیں بنوائیں‘ جس سے شہر کی رونق اور خوبصورتی میں بہت اضافہ ہو گیا تھا‘ مدارس اور علمی مجالس کا سلسلہ تو امیر عبدالرحمن ہی کے زمانے سے خوب زور و شور کے ساتھ اندلس میں جاری تھا‘ لیکن سلطان ہشام نے ان علمی ترقیات کے سلسلے کو ترقی دینے کے علاوہ سب سے بڑا کام یہ کیا کہ مدارس میں عربی زبان کو لازمی قرار دیا‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز میں اندلس کے عیسائی عربی زبان سے واقف ہو کر قرآن مجید اور دین اسلام سے واقفیت حاصل کرنے کے قابل ہوئے اور بڑی کثرت سے بہ طیب خاطر اسلام میں داخل ہونے لگے اور عیسائیوں کی وہ وحشت اور نفرت جو مسلمانوں سے تھی یکسر دور ہو کر اس کی جگہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں تعلقات محبت و مودت قائم ہونے لگے‘ عربی زبان کے لازمی قرار دینے کا اثر اشاعت اسلام کے لیے بے حد مفید ثابت ہوا‘ عیسائیوں کے اندر مسلمانوں کا احترام پیدا ہوا اور وہ اپنے عقائد و خیالات کی نا درستی اور غلطی سے واقف ہونے لگے‘ دونوں قومیں ایک دوسرے کی رعایت کرنے لگیں اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ مسلمان عام طور پر عیسائی عورتوں سے شادیاں کرنے لگے‘ عیسائیوں نے خود ہی اسلامی لباس پہننا شروع کر دیا۔ سلطان ہشام کے عادات و خصائل اور طرز زندگی میں سیدنا عمر بن عبدالعزیز aکے ساتھ بہت مشابہت تھی اندلس کی تمام رعایا نے ہشام کو ’’سلطان عادل‘‘ کا خطاب دیا تھا‘ اور اسی نام سے اس کا ہر جگہ ذکر کیا جاتا تھا۔ سلطان ہشام اپنے باپ عبدالرحمن سے زیادہ عابد‘ زاہد اور مذہبی شخص تھا‘ امیر عبدالرحمن کی سطوت اور بانی سلطنت ہونے کی حیثیت نے مولویوں اور مولوی مزاج لوگوں کو دربار شاہی میں ایک مناسب درجہ تک اقتدار حاصل کرنے کا موقعہ دیا تھا‘ لیکن سلطان ہشام کے عہد حکومت میں فقہا کا اقتدار سب پر فائق تھا۔ اسی زمانہ میں فقہا کے الگ مذاہب کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔۱؎ سیدنا امام مالک بن انسa کی مدینہ میں بڑی شہرت تھی اور حجاز میں فقہ مالکی کی پیروی عام طور پر لوگ کرنے لگے تھے‘ سیدنا مالک کی خدمت میں اندلس کے بعض مسلمان آئے اور کچھ عرصہ رہ کر اندلس واپس گئے‘ سیدنا امام مالک نے سلطان ہشام کے حالات سن کر بڑی محبت و عقیدت کا اظہار کیا‘ چنانچہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں کوئی شخص اگر خلیفتہ المسلمین ہونے کا مستحق ہے تو وہ صرف ہشام بن عبدالرحمن ہے‘ امام صاحب کا یہ خیال بالکل درست اور بجا تھا‘ کیوں کہ ہشام علاوہ عابد زاہد ہونے کے عقل مند و مدبر اور بہادر بھی تھا وہ بہادری اور قابلیت سپہ سالاری میں اپنے باپ کا ہمسر اور زہد و عبادت میں اپنے باپ سے بڑھ کر تھا۔