تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور دوسری طرف ایسٹریاس کے عیسائیوں کو جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے اور جو جبل البرتات میں اپنی ایک چھوٹی سی عیسائی ریاست قائم کر چکے تھے‘ اس وسیع فرصت میں اپنی طاقت بڑھانے اور دامن کوہ اور پہاڑ کے علاقے میں اپنی حدود حکومت وسیع کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جس سال عبدالرحمن بن معاویہ نے اندلس میں قدم رکھا ہے اسی سال اس عیسائی ریاست کے حاکم الفانسو کا انتقال ہو گیا‘ الفانسو کی جگہ اس کا بیٹا فردلید‘ ۱؎یا فرد‘ یا علی رائی ریاست کا حاکم بن گیا‘ فردیلہ نے اپنی ریاست کے حدود بڑھانے عیسائیوں کو اپنے گرد جمع کرنے اور ۱؎ اسے فرڈی ننڈ بھی کہتے ہیں۔ اپنا ہمدرد بنانے اور آئندہ کے لیے ترقیات کے منصوبے سوچنے کا خوب موقعہ پایا‘ ادھر جنوبی فرانس کا صوبہ جو مسلمانوں کے قبضہ میں تھا اس کی طرف متوجہ ہونے اور وہاں کے مسلمانوں کو امداد پہنچانے کا دربار قرطبہ کو موقعہ ہی نہیں ملا‘ کیوں کہ اگر اس طرف فوجیں بھیجی جاتیں اور فرانسیسیوں سے سلسلہ جنگ شروع کر دیا جاتا تو ملک اندلس کا بچانا امیر عبدالرحمن کے لیے محال تھا اب جب کہ عباسیوں کے ہمدردوں نے آئے دن بغاوتیں شروع کر دیں تو فرانسیسیوں نے شہر نار بون پر حملہ کر کے اس کا محاصرہ کر لیا‘ چھ سال تک بلا امداد غیرے شہر ناربون کے مسلمانوں نے فرانسیسی فوجوں کا مقابلہ جاری رکھا اور آخر نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس سال سے زیادہ جنوبی فرانس مسلمانوں کے قبضے میں رہنے کے بعد پھر فرانسیسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ خلیفہ بغداد کے سپہ سالار عبدالرحمن بن حبیب کے مارے جانے کے بعد ملک اندلس میں جو لوگ عباسی سازش کے موید و ہمدرد تھے ان میں حسین بن عاصی اور سلیمان بن یقظان خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں‘ یہ دونوں سرقسطہ اور اس کے نواح میں عامل و حکمران تھے‘ شہر سرقسطہ جبل البرتات کے جنوبی دامن میں تھا ان دونوں نے خلیفہ مہدی عباسی سے خط و کتابت کی‘ خلیفہ مہدی بڑا نیک اور بااللہ تعالیٰ خلیفہ تھا مگر یہ انسانی فطرت کا تقاضا تھا کہ اس کو بنو امیہ سے نفرت اور عبدالرحمن کے اندلس میں برسر ماتحت ہونے سے ملال تھا‘ دربار بغداد سے ان لوگوں کی ہمت افزائی ہوئی اور ان دونوں نے فرانس کے بادشاہ شارلیمن سے خط و کتابت کر کے اس کو ملک اندلس پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور یہ بھی بتایا کہ خلیفتہ المسلمین مہدی عباسی جو تمام عالم اسلامی کے دینی و دنیوی پیشوا ہیں‘۱؎ ان کا بھی یہی منشا ہے‘ کہ عبدالرحمن اور اس کی حکومت کو مٹا دیا جائے‘ لہٰذا ہم اور اکثر مسلمانان اندلس آپ کے شریک حال اور ہر طرح معاون و مدد گار ہوں گے‘ شارلیمین کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی زریں موقعہ اندلس کی فتح کا نہ ہو سکتا تھا اور اندلس کی فتح سے بڑھ کر کوئی دوسرا کارنامہ اس کی شہرت و عظمت کے لیے ممکن نہ تھا‘ مگر وہ صوبہ اربونیہ اور شہر ناربون کے مٹھی بھر بے یارو مدد گار مسلمانوں کی ہمت و استقلال اور شجاعت و بہادری سے خوب واقف تھا‘ اس لیے اس نے اندلس پر حملہ کرنے میں عجلت و شتاب زدگی سے کام نہیں لیا‘ بلکہ اچھی طرح اپنی فوجی تیاریاں کیں اور ساتھ ہی اندلس کے ان باغیوں اور غداروں سے خط و کتابت کر کے ہر قسم کی واقفیت بہم پہنچائی‘ اسی سلسلہ میں مناسب سمجھا گیا‘ کہ اندلس کے سابق امیر یوسف فہری کے بیٹے ابوالاسود کو جو قرطبہ کے متصل ایک قلعہ میں نظر بند ہے آزاد کرایا جائے تاکہ اس کی وجہ سے مسلمانان اندلس کی توجہ امیر