تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مملوکیوں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے‘ اس مسئلہ پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی‘ آخر اس کے میر منشی محمد پاشا نے ایک پر جوش اور زبردست تقریر میں بیان کیا کہ سلطان عثمانی کو ضرور اپنی طاقت کا اظہار کرنا چاہیے اور حقیقت یہ ہے کہ مملوکی سلطان عثمانی کے سامنے ہرگز اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ وہ حرمین شریفین کے خادم ہوں اور ملک حجاز کو اپنے قبضہ میں رکھیں‘ سلطان عثمانی کو یہ شرف ضرور حاصل کرنا چاہیے اور اس کا حاصل کرنا عین خدمت اسلامی ہے اور اس کے لئے مملوکیوں سے لڑنا بالکل جائز اور مناسب ہے‘ چنانچہ سلطان نے اس رائے کو بہت ہی پسند کیا اور اپنے میر منشی کو اسی وقت وزیراعظم بنا دیا۔ سلطان سلیم نے مصر کی سلطنت مملوکیہ سے جنگ کا مصمم ارادہ کر کے اول ایک سفارت امیر قانصوہ غازی کے پاس روانہ کی اور پیغام بھیجا کہ تم ہماری اطاعت و فرماں برداری قبول کر کے اظہار اطاعت کے لئے خراج گذاری قبول کرو‘ ورنہ ہم فوج کشی کر کے تم سے ملک چھین لیں گے‘ سلطان کے سفیر جب حلب میں قانصوہ غازی کے پاس پہنچے تو وہ بہت برا فروختہ ہوا اور سفیروں کو قید کر لیا‘ بس اتنا بہانہ فوج کشی کے لئے کافی تھا سلطان فوراً قسطنطنیہ سے فوج لے کر روانہ ہوا‘ جب عثمانیہ لشکر قریب پہنچا‘ تو مملوکی سلطان گھبرایا اور اس نے مصلحت مصالحت ہی میں دیکھی‘ چنانچہ عثمانی سفیروں کو آزاد کر کے ان کے ہاتھ صلح کا پیغام بھیجا۔ مگر اب یہ کوشش بے سود تھی‘ سلطان سلیم برابر بڑھتا چلا گیا۔ حلب کے قریب میدان مرج وابق میں جہاں حضرت دائود uکی قبر ہے دونوں فوجیں جنگ خالدران سے پورے دو سال کے بعد ۲۴ اگست ۱۵۱۶ء مطابق ۹۲۲ھ کو ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئیں۔ مملوکی اپنی شجاعت و بہادری میں ہرگز عثمانیوں سے کم نہ تھے ان کی بہادری کی عام طور پر ہر ملک کے مؤرخین نے تعریف کی ہے‘ لیکن اس زمانہ میں ان کے اندر آپس کے اختلاف پیدا ہو چکے تھے اور اندرونی رقابتوں نے ان کی مشہور و مسلم بہادری کے اظہار کا موقع ضائع کر دیا تھا‘ چنانچہ سلطان سلیم کی کثیر التعداد فوج کے مقابلہ میں مملوکی لشکر پر آثار ہزیمت نمایاں ہوئے اور مملوکی سلطان جو بہت بوڑھا شخص تھا‘ نہایت جرات و ہمت کے ساتھ لڑتا ہوا میدان جنگ میں مارا گیا مملوکی سلطان کے مارے جانے کی خبر مملوکی لشکر میں مشہور ہوئی تو ان کے پائوں اکھڑ گئے اور سلطان سلیم آگے بڑھ کر حلب پر قابض ہو گیا۔ اس شکست سے مملوکیوں کی ہمت مطلق پست نہیں ہوئی کیوں کہ وہ عثمانیوں کو اپنی برابر بہادر نہیں جانتے تھے‘ قانصوہ غازی کے مارے جانے پر تمام سردار ان لشکر قاہرہ کی طرف اس لئے چلے گئے کہ وہاں جدید سلطان کا انتخاب کریں‘ مملوکیوں میں چوبیس سردار اعلیٰ درجہ کے ہوا کرتے تھے جو اس بات کا حق رکھتے تھے کہ ایک سلطان کے فوت ہونے پر اتفاق رائے سے کسی شخص کو اپنا سلطان منتخب کریں‘ چوبیس سرداروں کا ایسے انتخاب کے موقعہ پر دارالسلطنت قاہرہ میں موجود ہونا ضروری تھا لہٰذا مملوکیوں کے ایسے بڑے بڑے تمام سرداروں کو فوراً قاہرہ کی طرف جانا ضروری ہو گیا کہ جلد از جلد نیا سلطان منتخب ہو سکے۔ بڑے بڑے سرداروں کی غیرموجودگی میں شام کا ملک سلطان سلیم کے لیے خود بخود خالی تھا‘ لہٰذا اس کو اس فرصت میں شام کے شہروں پر قبضہ کرنے کا خوب موقعہ مل گیا اور دمشق و بیت المقدس وغیرہ سب سلطان کے قبضے میں آ گئے۔ جنگ حلب کے بعد کوئی بڑی مزاحمت مملوکیوں کی طرف سے