تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سلطان کی مغربی حدود سلطنت پر کسی قسم کی کشمکش پیدا نہ ہوئی‘ سلطان سلیم کو اپنے بھائیوں سے فارغ ہوتے ہی ایران کی سلطنت اور ایشیائے کوچک کے لوگوں سے الجھنا پڑا اور حقیقت یہ ہے سلطان سلیم اگر ایران کی سلطنت کے خلاف مستعدی کا اظہار نہ کرتا تو سلطنت عثمانیہ کے درہم برہم ہو جانے میں کوئی کسر باقی نہ تھی‘ اسماعیل صفوی اپنے آپ کو حضرت امام جعفر صادق کی اولاد میں بتاتا تھا اس لئے ایرانی رعایا اور بھی زیادہ اس کی گرویدہ ہو گئی تھی شام اور ایشیائے کوچک میں بھی شیعہ سنی کے ہنگامے کم نہیں ہو چکے تھے ان ملکوں میں شیعہ مذہب کو قبول کرنے کا کچھ نہ کچھ مادہ موجود تھا‘ نیز بہت سے شیعہ ان ملکوں میں سکونت پذیر تھے‘ اسمٰعیل صفوی کی نانی ایک عیسائی عورت اور طرابزون کے عیسائی بادشاہ کی بیٹی اور حسن طویل کی بیوی تھی لہٰذا اسمٰعیل صفوی کی خواہش تھی کہ طرابزون میرے قبضہ میں آئے حالانکہ وہ عرصہ سے سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا اسماعیل صفوی کو چونکہ اسی شیعہ عصبیت کے ذریعہ سلطنت تک پہنچنے کا موقعہ ملا تھا اور اس کو معلوم تھا کہ کس طرح شیعوں نے خلافت بغداد کو مغلوں کے ہاتھ سے برباد کرایا‘ لٰہذا اسمیٰل صفوی جیسے اولوالعزم اور زبردست بادشاہ کا سلطنت عثمانیہ کو نفرت و عداوت کی نظر سے دیکھنا کوئی تعجب کی بات نہ تھی اس نے ایران کا تخت حاصل کرنے کے بعد بایزید ثانی کے عہد حکومت میں ایشیائے کوچک کے اندر بد امنی پھیلانے اور شیعہ مذہب کی تلقین کر کے لوگوں کو خفیہ طور پر اپنی طرف مائل کرنے میں کوتاہی نہیں کی ان کارروائیوں کا پورا پورا سد باب بایزید ثانی کی حکومت نے نہیں کیا اور اس کے دونوں بیٹوں نے جو ایشیائے کوچک میں بطور عامل حکمران تھے۔ اس خفیہ اشاعتی کام کا مطلق احساس نہیں کیا‘ مگر سلیم جو طرابزون کا حاکم تھا اسماعیل صفوی کی ریشہ دوانیوں کو خوب محسوس کر چکا تھا اور اسی لئے اس نے اپنے ماتحت صوبے میں اسماعیل صفوی کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا اسماعیل صفوی سلطان بایزید ثانی ہی کے عہد حکومت میں بعض سرحدی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور عثمانیہ سلطنت کے عمال جب ان علاقوں کو واپس نہ لے سکے تو بایزید ثانی نے کچھ زیادہ التفات اس طرف نہیں کیا۔ جب سلطان سلیم اپنے بھائیوں اور بھتیجوں سے ایشیائے کوچک میں برسر پیکار تھا تو شاہ اسماعیل صفوی اس خانہ جنگی کو بڑے اطمینان سے دیکھ رہا تھا اور اس نے شہزادہ احمد برادر سلطان سلیم کو سلیم کے خلاف اپنے ان داعیوں کے ذریعے جو ایشیائے کوچک میں کام کر رہے تھے خوب امداد پہنچائی تھی اسی لئے احمد اس قابل ہو گیا تھا کہ اس نے سلطان سلیم کی فوج کو شکست بھی دے دی تھی۔ اب سلطان سلیم نے دیکھا کہ اسماعیل صفوی کے پاس شہزادہ احمد کا بیٹا مراد یعنی سلیم کا بھتیجا موجود ہے اور اسماعیل اس کوشش میں مصروف ہے کہ مراد کو اپنی زبردست فوج دے کر ایشیائے کوچک پر حملہ کرائے اور خود اس کا شریک ہو کر اس کو قسطنطنیہ کے تخت پر بٹھائے تو وہ اس خطرہ سے غافل نہیں رہ سکتا تھا۔ دوسری طرف اس نے دیکھا کہ ایشیائے کوچک کے قصبوں‘ شہروں اور گائوں میں بڑے زور شور سے شیعہ سنی مذہب کے جھگڑے برپا ہیں جو اسماعیل صفوی کے پیدا کئے ہوئے تھے۔ سلطان سلیم نے بھائیوں کے قتل سے فارغ ہو کر اور قسطنطنیہ واپس آ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایشیائے کوچک میں ایک زبردست محکمہ خفیہ پولیس کا قائم کیا اور حکم دیا کہ ان لوگوں کی ایک نہایت صحیح اور مکمل فہرست تیار کی جائے‘ جو اسماعیل صفوی کے منادوں کی تعلیم