تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اس بدامنی وغارت گری کے فرو کرنے کے لئے قرقود احمد نے جو ایشیائے کوچک کے غالب حصوں پر حکمراں تھے فوجیں استعمال کیں اور غارت گر گروہوں سے بار بار لڑائیاں ہوئیں‘ رفتہ رفتہ ان قزاقوں اور باغیوں نے سلطان عثمانی کی غفلت اور شہزادوں کی سستی و غلط روی سے فائدہ اٹھایا اور ان باغیوں کی ٹولیاں شاہ قلی نام ایک شخص کی قیادت میں مجتمع و منتظم ہو کر ایک زبردست فوج کی شکل میں تبدیل ہو گئیں۔ شاہ قلی ایران کے بادشاہ اسماعیل صفوی کا مریدو ہوا خواہ تھا اس نے سلطنت عثمانیہ کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی کوشش میں کوئی کوتاہی نہیں کی‘ بالآخر جب قسطنطنیہ میں ایشیائے کوچک کی بدامنی کے حالات مشہور ہوئے تو سلطان بایزید ثانی اس امر پر مجبور ہوا کہ اپنے وزیراعظم کو فوج دے کر مقابلہ پر بھیجے‘ چنانچہ وزیراعظم نے پہنچ کر مقام شریمشک پر شاہ قلی (جس کو ترک شیطان قلی کہتے تھے) کا مقابلہ کیا‘ سخت خوں ریز جنگ ہوئی‘ اور لڑائی میں سلطانی وزیراعظم اور شاہ قلی دونوں مارے گئے‘ یہ واقعہ ۹۱۷ھ میں وقوع پذیر ہوا اس بغاوت اور بدامنی کا اثر اسی علاقے میں زیادہ تھا جو قرقود اور احمد کے زیر حکومت تھا‘ سلیم جس صوبے کا حاکم تھا اس صوبہ یعنی طرابزون کے علاقے میں باغیوں کو بدامنی پھیلانے کا کوئی موقعہ نہیں ملا جو دلیل اس بات کی تھی کہ سلیم بہت مستعد اور مآل اندیش تھا‘ سلیم نے اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے زائد فوج بھرتی کر لی تھی اور جب باغیوں کی طرف سے اس کو اطمینان حاصل ہوا تو اس نے اس فوج کو لے کر سرکیشیا کے علاقے پر حملہ کیا اور فتوحات حاصل کیں۔ یہ خبر سن کر سلطان بایزید ثانی نے قسطنطنیہ سے امتناعی حکم جاری کیا کہ تم غیر علاقے پر حملہ آور ہو کر اپنے دائرہ حکومت کو وسعت نہ دو‘ سلیم نے لکھا کہ اگر مجھ کو اس طرف فتوحات حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے تو یہاں سے تبدیل کر کے کسی یورپی صوبے کی حکومت پر نامزد فرما دیجئے‘ تاکہ اس طرف عیسائیوں پر جہاد کرنے کا موقعہ ملے میں خاموش بیٹھنا اور میدان جنگ سے جدا رہنا پسند نہیں کرنا‘ یہی وہ زمانہ تھا کہ سلطان بایزید ثانی احمد کو اپنی جانشینی اور قائم مقامی پر نامزد کرنے اور ولی عہد بنانے کا ارادہ کر چکا تھا‘ سلطان کے اس ارادے سے مطلع ہو کر جاں نثاری فوج اور دوسرے فوجی افسروں نے مخالفت کا اظہار کیا ان میں سے بعض تو قرقود کو اس لئے ترجیح دیتے تھے کہ وہ بڑا بیٹا ہے اور سلیم کو اس لئے ولی عہدی کا مستحق جانتے تھے کہ وہ بہادر اور مآل اندیش ہے‘ اس کشمکش کی احمد اور قرقود کو اطلاع ہوئی‘ تو وہ بجائے خود اس فکر میں مبتلا ہوتے کہ کسی طرح تخت حکومت حاصل کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تینوں بھائی الگ الگ اپنی طاقتوں کے بڑھانے اور ایک دوسرے کی مخالفت کرنے پر آمادہ ہو گئے سلطان بایزید ثانی نے اراکین سلطنت اور خود سلیم کی خواہش کے موافق سلیم کو ایک یورپی صوبے موسومہ سمندرا پر نامزد کر دیا۔ سلطان بایزید ثانی کے بیٹے چوں کہ آپس میں مصروف مسابقت ہو چکے تھے۔ لہٰذا سلیم نے بھی اپنے بھائیوں کے خلاف سلطنت کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ضروری سمجھی اور وہ اراکین سلطنت اور فوجی سرداروں کے ایما پر یورپ میں داخل ہو کر ایڈریا نوپل پر قابض ہو گیا۔ سلیم کے ایڈریا نوپل آنے کی خبر سن کر سلطان بایزید ثانی مقابلہ کے لئے روانہ ہوا جب سلطان بایزید ثانی مقابلہ پر پہنچ گیا تو سلیم کی ہمراہی فوج کے بہت سے آدمی اس کا ساتھ چھوڑ کر سلطان کی فوج میں شامل ہو گئے۔ سلطان بایزید ثانی کی فوج نے سلیم کو شکست دی اور