تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے ضرور لے لیا کہ اس نو مفتوحہ علاقے کی تمام آمدنی حرمین شریفین کی خدمت گذاری میں صرف کی جائے گی‘ سلطان بایزید ثانی کے پاس احمد قیدوق ایک نہایت قیمتی اور تجربہ کار سپہ سالار تھا اگر بایزید چاہتا تو اس سے خوب کام لے سکتا تھا مگر اس نے اس جوہر قابل سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا احمد قیدوق فوج میں بہت ہر دل عزیز تھا اور سلطان بایزید ثانی کو اس کی غلط کاریوں پر نصیحت کرتا رہتا تھا وہ اپنی صاف بیانی اور فاش گفتاری میں کسی شاہی سطوت اور سلطانی رعب کی مطلق پروا نہ کرتا تھا‘ حقیقتاً ایسا نصیحت گر جو محبت کی وجہ سے غلطیوں پر تنبیہ کرے بہت غنیمت ہوتا ہے‘ لیکن بایزید زیادہ برداشت نہ کر سکا ۸۹۵ھ میں بایزید ثانی نے جان نثاری فوج کے بڑھے ہوئے زور کو توڑنا چاہا اور اس فوج کے خلاف سخت احکام صادر کرنے پر آمادہ ہوا‘ فوج میں چوں کہ پہلے ہی سے شورش برپا تھی‘ احمد قیدوق نے بایزید کو برسر دربار سمجھایا کہ آپ اس زمانے میں جب کہ ہر طرف ہم کو فوج سے کام لینے کی ضرورت ہے فوج کو بد دل اور افسردہ خاطر نہ کریں۔ اس کام کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی رکھیں ورنہ پھر اندیشہ ہے کہ مشکلات پر قابو پانا دشوار ہو گا اور اپنی سلطنت کا بچانا آپ کے لیے آسان نہ رہے گا‘ بظاہر بایزید نے احمد قیدوق کی بات کو مان لیا مگر اس کو احمد قیدوق کا اس طرح دخل درمعقولات ہونا سخت گراں گذرا‘ اس نے چند روز کے بعد احمد قیدوق کے قتل کا ارادہ کیا‘ چنانچہ احمد قیدوق کو اسی لیے گرفتار کر لیا گیا‘ فوج نے اپنے ہر دل عزیز سردار کے قتل کی خبر سن کر ایوان سلطانی کا محاصرہ کر لیا اور سلطان کو دھمکی دی کہ اگر ہمارے سردار احمد قیدوق کو قتل کر دیا گیا ہے تو ہم اس کے معاوضے میں سلطان بایزید کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑیں گے‘ بایزید نے مجبور ہو کر احمد قیدوق کو جو ابھی قتل نہیں کیا گیا تھا‘ جان نثاری فوج کے سپرد کر دیا اور بظاہر اس کی عزت و تکریم بھی کی‘ مگر چند ہی روز کے بعد تمام جان نثاری فوج کو کسی مہم کے بہانے سے دور دراز کے سرحدی مقام پر بھیج کر اور دارالسلطنت کو فوج سے خالی پا کر احمد قیدوق کو قتل کر دیا‘ اس سردار کا قتل ہونا سلطنت عثمانیہ کے لیے مضر ثابت ہوا۔ ۸۹۶ھ میں سلطنت عثمانیہ اور روس کے درمیان تعلقات قائم ہوئے یعنی زار ماسکو نے اپنا سفیر مناسب تحف و ہدایا کے ساتھ سلطان کی خدمت میں قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا اس سفیر کے ساتھ دربار قسطنطنیہ میں معمولی برتائو ہوا اور وہ چند روز رہ کر ماسکو کی جانب رخصت ہوا‘ سلطان بایزید کے عہد حکومت میں سلطنت عثمانیہ کی بحری طاقت میں بہت ترقی ہوئی‘ سلطان کی توجہ بحری طاقت کے بڑھانے کی طرف اس لیے زیادہ منعطف ہوئی کہ اس کو شہزادہ جمشید کی وجہ سے اندیشہ تھا کہ روڈس و اٹلی اور فرانس کی حکومتیں مل کر بحری حملہ کی تیاری پر آمادہ ہوں گی‘ ایک طرف اس نے ان سلطنتوں اور دوسری عیسائی حکومتوں سے صلح قائم رکھی اور دوسری طرف ان کے حملہ سے محفوظ رہنے کی تدابیر سے بھی غافل نہیں رہا اور اپنی بحری طاقت کو بڑھانے میں مصروف رہا۔ جس زمانہ میں جمشید عیسائیوں کے قبضے میں پہنچ چکا تھا‘ اندلس کے مسلمانوں یعنی شاہ غرناطہ نے سلطان بایزید سے امداد طلب کی کہ بحری فوج اور جنگی بیڑہ سے ہماری مدد کی جائے بایزید اندلسی مسلمانوں کی درخواست پر ان کو بہت بڑی مدد دے سکتا تھا‘ لیکن وہ محض اس وجہ سے کہ کہیں پوپ اور دوسرے عیسائی سلاطین جمشید کو آزاد کر کے میرے مقابلہ پر کھڑا نہ کر دیں متامل رہا اور جیسی کہ چاہیے تھی‘ ویسی مدد اندلس