تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آبسن کے پاس بھیج دیا اور لکھا کہ میں ہمیشہ یہ رقم بھیجتی رہوں گی‘ غرض کہ روڈس والوں نے جمشید کو جلب منفعت کا بہترین ذریعہ بنایا اور اس کے ذریعہ سے فائدہ اٹھانے میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے سے مطلق پرہیز نہیں کیا اس طرح جلب منفعت کی تدابیر کام میں لا کر روڈس والوں نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو سلطان بایزید ثانی یا سلطان مصر جمشید کے حاصل کرنے کے لیے ہمارے ملک پر حملہ کر دیں اور یہ سونے کی چڑیا ہاتھ سے جاتی رہے‘ لہٰذا انہوں نے جمشید کو روڈس میں رکھنا مناسب نہ سمجھا۔ اور اس کو سلطنت فرانس کی حدود میں شہر نائس کی طرف روانہ کر دیا اور ایک جمعیت اس کی نگرانی اور دیکھ بھال پر مامور کر دی۔ نائس سے پھر دوسرے مختلف شہروں میں اس کو تبدیل کرتے رہے اور اس عرصہ میں شہزادے کے ہمراہیوں کو یکے بعد دیگرے جدا کرتے رہے‘ یہاں تک کہ جمشید تنہا رہ گیا‘ فرانس کے ایک شہر میں جب جمشید کو ٹھہرایا گیا تو اتفاقاً حاکم شہر کی لڑکی فلپائن ہلنیا اس پر عاشق ہو گئی‘ چند روز کے بعد اس شہر سے بھی اس کو جدا کر کے اس کو ایک خاص مکان میں جو اسی کے لیے فرانس کے بادشاہ نے تعمیر کرایا تھا لے جا کر رکھا اب گویا شہزادہ پر بادشاہ فرانس نے اپنا قبضہ کر لیا کیوں کہ وہ ایک نہایت قیمتی مال تھا اور ہر شخص اس پر قبضہ جمانا چاہتا تھا یہ مکان کئی منزل کا تھا‘ نیچے اور اوپر کی منزل میں تو محافظ اور چوکیدار رہتے تھے‘ بیچ کی منزل میں شہزادے کو رکھا جاتا تھا‘ اس عرصہ میں شاہ فرانس‘ پوپ روما‘ اور دوسرے عیسائی سلاطین نے ڈی آبسن سے خط و کتابت کر کے شہزادہ جمشید کو اپنے اپنے قبضہ میں لینے کی درخواست کی‘ شہزادہ گویا ایسا مال تھا جو نیلام کے میدان میں رکھا ہو اور ہر شخص اس پر بولی بول رہا ہو ڈی آبسن چونکہ شہزادہ کے ذریعہ خوب نفع اٹھا رہا تھا اور وہ اس کو اپنے قبضہ میں رکھنے کی قیمت پہچانتا تھا لہٰذا اس نے نہ تو کسی کو صاف جواب دیا نہ اس کے دینے پر رضا مند ہوا بلکہ خط و کتابت کے طول دینے اور شرائط کے طے کرنے میں وقت کو ٹالتا رہا ۸۹۵ھ تک شہزادہ جمشید ملک فرانس میں رہا اور روڈس والے برابر سلطان بایزید ثانی سے روپیہ وصول کرتے رہے‘ جب ڈی آبسن کو یقین ہو گیا کہ عیسائی سلاطین بالخصوص فرانس کا بادشاہ جمشید پر قبضہ کر لے گا کیوں کہ وہ اس کے ملک میں فروکش ہے تو اس نے جمشید کو بلا لینے کی تجویز کی اور ادہر جمشید کی ماں کو لکھا کہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سفر خرچ کے لیے بھیج دو تو میں تمہارے بیٹے کو فرانس سے بلا کر تمہارے بیٹے کو پاس مصر میں پہنچا دوں‘ اس بیچاری نے فوراً یہ روپیہ بھجوا دیا اور ڈی آبسن نے اپنے آدمیوں کو لکھا کہ جمشید کو ملک فرانس سے اب اٹلی میں لے آئو یہ حال جب فرانس کے باشادہ چارلس ہشتم کو معلوم ہوا تو اس نے مخالفت کی اور کہا کہ میں جمشید کو ہرگز اپنی عمل داری سے باہر نہ جانے دوں گا آخر بڑی ردوکد کے بعد چارلس ہشتم نے اس شرط پر جمشید کو اٹلی جانے کی اجازت دی کہ پوپ دس ہزار روپیہ بطور ضمانت جمع کرے کہ اگر دربار فرانس کی اجازت کے بغیر جمشید کو اٹلی سے باہر جانے دیا تو یہ دس ہزار روپیہ ضبط ہو جائیں گے‘ ادھر پوپ نے ایک ضمانت روڈس کے حاکموں کو دی جس کا منشاء یہ تھا کہ اگر وہ فوائد جو روڈس کی حکومت کو جمشید کے ذریعے پہنچ رہے ہیں جمشید کے اٹلی آنے سے رک گئے تو پوپ ان نقصانات کی تلافی کرے گا۔ غرض ۸۹۵ھ میں شہزداہ جمشید شہر روما میں داخل ہوا اور یہاں اس کا شاندار استقبال کیا گیا اور پوپ کے شاہی محل میں ٹھہرایا گیا‘ فرانسیسی سفیر شہزادے کے ہمراہ تھا‘ جب