تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں خوب مل سکتا تھا جہاں سلطان مصر اس کی ہر طرح مدد کرنے کو تیار تھا مگر اس نے روڈس کے حکمران عیسائیوں کی پارلیمنٹ کو لکھا کہ کیا تم اس بات کی اجازت دے سکتے ہو کہ اس تمہارے جزیرے میں چند روز قیام کر کے پھر یونان و البانیہ کی طرف چلا جائوں اور اپنے ملک کو حاصل کرنے کی کوشش کروں اس پیغام کو سنتے ہی روڈس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور ان مقدس عیسائیوں نے جمشید کے اس ارادہ کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر عیسائی سلاطین کے چہروں پر ذالت و کمینگی کا سیاہ پوڈر ملنے کے لیے ایک شیطانی منصوبہ سوچا‘ جمشید ممکن تھا کہ اپنے روڈس جانے کے ارادہ پر نظر ثانی کرتا اور ملک شام میں مقیم رہ کر چند روز انجام اور عواقب امور کو سوچتا اور اس عرصہ میں سلطان مصر باصرار اس کو مصر واپس بلاتا اور اس کی ماں اور بیوی کی محبت اس کو مصر کی طرف کھینچتی‘ لیکن روڈس کی پارلیمنٹ کے صدر مسمی ڈابسن نے فوراً جمشید کو لکھا کہ ہم آپ کو سلطنت عثمانیہ کا سلطان تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تشریف آوری ہمارے لیے موجب عزت و افتخار ہو گی اور میں اپنی پارلیمنٹ کی جانب سے آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ہماری عزت افزائی کے لیے ضرور روڈس میں قدم رنجہ فرمائیں‘ ہماری تمام فوج‘ تمام خزانہ تمام جہاز اور تمام طاقتیں آپ کی خدمت گزاری اور اعانت کے لئے وقف ہیں اور یہاں آپ کے لئے ہر قسم کا ضروری سامان اور طاقت موجود و مہیا کر دی جائے گی‘ اس جواب کو سن کر جمشید تامل نہیں کر سکتا تھا‘ وہ بلا توقف تیس آدمیوں کو ہمراہ لے کر روڈس کی طرف چل دیا۔ جزیرہ کے ساحل پر اتر کر اس نے دیکھا کہ استقبال کے لیے آدمی موجود ہیں وہاں سے وہ تزک و احتشام کے ساتھ دارالسلطنت میں پہنچایا گیا‘ ڈی آبسن یا ڈابسن نے جو پارلیمنٹ کا پریذیڈنٹ تھا‘ فوج کے ساتھ شان دار استقبال کیا اور شاہی مہمان کی حیثیت سے ٹھیرایا‘ لیکن بہت جلد شہزادہ جمشید کو معلوم ہو گیا کہ وہ مہان نہیں بلکہ ایک قیدی ہے۔ ڈابسن نے سب سے پہلے جمشید سے ایک اقرار نامہ اس مضمون کا لکھوایا کہ اگر میں سلطنت عثمانیہ کا سلطان ہو گیا تو فرقہ ٹائٹس یعنی روڈس کے حاکموں کو ہر قسم کی مراعات عطا کروں گا اس کے بعد اس نے سلطان بایزید کو لکھا کہ جمشید ہمارے قبضہ میں موجود ہے اگر آپ ہم سے صلح رکھنا چاہتے ہیں تو ہم کو اپنے تمام بندرگاہوں میں آنے جانے اور تجارت کرنے کی آزادی دیجئے ہر قسم کے محصول ہم کو معاف کئے جائیں اور آپ کا کوئی اہل کار ہم سے کسی جگہ کسی قسم کا محصول طلب نہ کرے نیز ۴۵ ہزار عثمانی سکے سالانہ ہم کو دیئے جائیں تاکہ ہم جمشید کو اپنی حفاظت اور قید میں رکھیں اور اگر آپ نے ہماری ان شرائط کو منظور نہ کیا تو ہم اس شہزادے کو آزاد چھوڑ دیں گے تاکہ وہ آپ سے تخت سلطنت چھین لینے کی کوشش کر سکے۔ سلطان بایزید ثانی نے بلا تامل ڈی آبسن کے تمام مطالبات کو منظور کر لیا اور ۴۵ ہزار ڈاکٹ یعنی تین لاکھ روپے سے بھی زیادہ سالانہ رقم روڈس والوں کے پاس بھجواتا رہا ادھر ڈی آبسن پریذیڈنٹ روڈس نے جمشید کی دکھیا غریب الوطن ماں کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ ہمارے پاس بھیجتی رہو گی تو ہم تمہارے بیٹے جمشید کو سلطان بایزید ثانی کے سپرد نہ کریں گے اور اس کو بہ حفاظت آرام سے اپنے پاس رکھیں گے‘ ورنہ سلطان بایزید ثانی اس سے بھی زیادہ روپیہ ہم کو دینا چاہتا ہے ہم مجبوراً اس کے سپرد کر دیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ جمشید کو قتل کر کے اطمینان حاصل کرے گا‘ اس پیغام کو سنتے ہی جمشید کی ماں نے جس طرح ممکن ہو سکا ڈیڑھ لاکھ روپیہ ڈی