تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بات سے واقف تھا کہ اگر میں تخت سلطنت کو حاصل نہ کر سکا تو سلطان بایزید ثانی مجھ کو ہرگز زندہ نہ چھوڑے گا لہٰذا وہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے بھی مجبور ہو گیا کہ سلطان بایزید ثانی کا مقابلہ کرے اور تخت سلطنت کے حصول کی کوشش میں کوتاہی نہ کرے۔ غرض سلطان بایزید ثانی نے اپنے سپہ سالار احمد قیدوق کی قابلیت و تجربہ کاری سے فائدہ اٹھایا اور اپنے بھائی جمشید کے مقابلہ پر مستعد ہو گیا۔ چنانچہ ۸۸۶ھ مطابق ۲ جون ۱۴۸۱ء دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا جمشید کی فوج کے اکثر سردار معہ اپنی اپنی جمعیتوں کے عین معرکہ جنگ میں سلطان بایزید ثانی کی طرف چلے آئے‘ اور اس طرح جمشید کو سلطان بایزید ثانی کی فوج سے شکست کھانی پڑی۔ ادھریہ دونوں بھائی ایشیائے کوچک میں مصروف جنگ تھے ادہر روما کا پوپ جو روما سے بھاگنے کی تیاریاں کر چکا تھا سلطان فاتح کی خبر وفات سن کر روما میں ٹھہرا رہا اور یورپ کے عیسائی ملکوں سے صلیبی مجاہدین کو دعوت دی کہ آ کر اٹلی کو بچائو اور اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر اٹرانٹو سے ترکوں کو نکال دو‘ چنانچہ ہسپانیہ اور فرانس وآسڑیا تک کے عیسائی دوڑ پڑے اور عیسائی فوجوں نے اٹرانٹو پر چڑھائی کر کے اس کا محاصرہ کر لیا‘ ایشیائے کوچک میں جب سلطان بایزید ثانی و جمشید کی فوجیں ایک دوسرے کے مد مقابل پہنچ چکی تھیں تو اسی زمانہ میں اٹرانٹو پر حملہ آوری کی تیاریاں عیسائیوں نے کر لی تھیں‘ قسطنطنیہ سے کوئی مدد اٹرانٹو کی فوج کو نہ مل سکی ترکوں نے خوب جم کر عیسائی فوجوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن جب ان کو قسطنطنیہ کی طرف سے مایوسی ہو گئی تو انہوں نے عیسائیوں کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم مدافعت کی پوری طاقت رکھتے ہیں اور ہم کو مغلوب کرنا تمھارے لئے آسان کام نہیں ہے مگر ہم اب دیر تک لڑنا اور خون بہانا مناسب نہیں سمجھتے اگر تم صلح کے ساتھ اس شہر کو لینا چاہتے ہو تو ہم تمھارے سپرد کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ ہم کو یہاں سے عزت و اطمینان کے ساتھ قسطنطنیہ کی طرف چلے جانے کی اجازت دو‘ عیسائیوں نے فوراً اس پیغام کو منظور کر کے شرائط صلح کی دستاویز لکھ کر ترکی سردار کے پاس بھیج دی جس کی رو سے عثمانیہ لشکر کے ہر فرد کی جان و مال کو امن دی گئی تھی۔ اس طرح صلح نامہ کی تکمیل کے بعد ترکوں نے شہر کا دوازہ کھول دیا اور عیسائیوں کا شہر پر قبضہ کرا کر خود وہاں سے روانہ ہونے کی تیاری کرنے لگے‘ لیکن عیسائی سرداروں نے بد عہدی کر کے تمام اسلامی فوج کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ شہر کی گلیاں میدان جنگ بن گئیں اور عیسائیوں نے ہر طرف سے گھیر کر نہایت ہی طالمانہ اور غیر شریفانہ طور پر قریباً تمام ترکوں کو قتل کر ڈالا اور اٹرانٹو کی گلیاں ترکوں کے خون سے لالہ زار بن گئیں۔ سلطان بایزید ثانی کی تخت نشینی کے بعد ہی سلطنت عثمانیہ کو یہ نہایت سخت و شدید نقصان پہنچا‘ کہ جو میخ ملک اٹلی میں گئی تھی وہ اکھڑ گئی اور ملک اٹلی کی فتح کا دروازہ جو ترکوں نے کھول لیا تھا وہ پھر بند ہو گیا اور روما کے گرجے پر جو حسرت و مایوسی کے بادل چھا گئے تھے وہ یک لخت دور ہو گئے اور اندلس کے ضعیف مسلمانوں کو جو زبردست امداد پہنچنے والی تھی اس کا امکان جاتا رہا احمد قیدوق کو پھر اتنی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ سلطان بایزید ثانی سے رخصت ہو کر اس طرف آتا اور اٹلی والوں سے اپنے مقتول سپاہیوں کا انتقام لیتا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) جمشید شکست کھا کر ایشیائے کوچک میں نہیں ٹھہرا۔ اور اپنے ہمراہیوں کی غداری کا معائنہ کرنے کے بعد اس نے ایشیائے کوچک کے کسی ترکی سردار و صوبہ دار پر بھی