تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محکموں پر قابض و متصرف ہو گئے۔ ادہر سپہ سالار احمد قیدوق جو اٹلی کے شہر اوٹرانٹو پر قابض و متصرف ہو کر آئندہ موسم بہار میں روما پر فوج کشی کی تیاریاں کر چکا تھا اور اوٹرانٹو کو ہر طرح قلعہ بند اور مضبوط بنا چکا تھا۔ تاکہ آئندہ چڑھائیوں اور لڑائیوں کے وقت یہ شہر ایک مستقل اور مضبوط مرکزی مقام کا کام دے سکے‘ سلطان کی خبر وفات کو سن کر بہت مغمموم ہوا اس نے فوراً اوٹرانٹو میں ہر قسم کی ضروریات فراہم کر کے اپنے ایک ماتحت سردار کو اوٹرانٹو کا حاکم اور وہاں کی فوج کا سپہ سالار بنایا۔ مناسب ہدایات کیں اور خود قسطنطنیہ کی جانب روانہ ہوا تاکہ وہاں نئے سلطان کی خدمت میں اٹلی کی فتح کے متعلق تمام باتیں عرض کر کے اور اجازت لے کر واپس آئے یا خود سلطان ہی کو اٹلی کی طرف لائے سلطان فاتح کی وفات کا حال بایزید کو اماسیہ میں پہلے معلوم ہو گیا اور وہاں سے صرف چار ہزار فوج لے کر دو منزلہ اور سہ منزلہ یلغار کرتا ہوا قسطنطنیہ پہنچ گیا یہاں آتے ہی تخت سلطنت پر جلوس کیا مگر جاں نثاری فوج نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اس کے سرداروں نے سلطان سے عرض کیا کہ ہماری تنخواہوں اور جاگیروں میں بیش قرار اضافہ کیجئے اور خوب انعام و اکرام دلوائیے ورنہ ہم ابھی آپ کو قتل کر دیں گے‘ بایزید فوج کے اس خود سرانہ رویہ سے مرعوب ہو گیا‘ اور اس نے جاں نثاری فوج کے مطالبات کو منظور کر کے آئندہ کیلئے اس رسم کی بنیاد رکھ دی کہ جب کوئی نیا سلطان تخت نشین ہو تو فوج کو انعام و اکرام دے کر خزانہ شاہی کا ایک بڑا حصہ اس طرح ضائع کر دے‘ بایزید کی اس پہلی کمزوری نے بتا دیا تھا کہ وہ کوئی زبردست اور قوی بازو سلطان اور اپنے باپ کا نمونہ نہ ہو سکے گا‘ لیکن ایک طرف اس کا اپنے بھائی جمشید سے عمر میں بڑا ہونا‘ دوسرے وزیر اسحاق پاشا اور جاں نثاری فوج کا طرف دار ہونا باعث اس کا ہوا کہ اراکین سلطنت کو باوجود اس احساس کے کہ وہ قوی دل سلطان نہیں ہے اس کی مخالفت کی جرأت نہ ہو سکی چند ہی روز کے بعد سپہ سالار احمد قیدوق بھی اٹلی سے قسطنطنیہ پہنچ گیا چونکہ اس کا رقیب وزیراعظم محمد پاشا بایزید کا مخالف اور جمشید کا طرف دار تھا‘ لہٰذا احمد قیدوق نے بھی بلاپس و پیش آتے ہی سلطان بایزید ثانی کی بعیت کر لی۔ جمشید کو باپ کے مرنے کی خبر کسی قدر دیر سے پہنچی اس وقت بایزید ثانی قسطنطنیہ میں آ کر تخت نشین ہو چکا تھا۔ جمشید نے ایشیائے کوچک میں شہروں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور شہر بروصہ پر قابض ہو کر اپنے بھائی سلطان بایزید ثانی کو لکھا۔ کہ سلطان فاتح نے آپ کو اپنا ولی عہد نہیں بنایا تھا۔ اس لئے آپ کا تنہا کوئی حق نہیں ہے کہ تمام سلطنت کے مالک و فرماں روا بن جائیں۔ مناسب یہ ہے کہ ایشیائی مقبوضات میرے تحت حکومت میں رہیں اور یورپی ملکوں پر آپ حکمرانی کریں۔ سلطان بایزید ثانی نے اس درخواست کو رد کر دیا اور جواباً کہا کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ قسطنطنیہ میں سلطان فاتح کی بہن اور ان دونوں بھائیوں کی پھوپھی موجود تھی۔ اس نے بھتیجے سلطان بایزید ثانی کے پاس جا کر اس کو سمجھایا کہ دونوں بھائیوں کا لڑنا اچھا نہیں ہے اور مناسب یہی ہے کہ جمشید کو ایشیائے کوچک کا تمام علاقہ دے دیا جائے‘ مگر سلطان بایزید ثانی نے پھوپھی کی نصیحت پر کوئی التفات نہ کیا۔ اور یہی جواب دیا کہ میں زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہوں کے جمشید مع اہل و عیال بیت المقدس میں جا کر سکونت اختیار کرے اور میں اس کے پاس صوبہ کریمیا کی آمدنی کا ایک حصہ اس کے گزارہ کے لئے بھجواتا رہوں گا‘ بہرحال مصالحت کی کوئی شکل پیدا نہ سکی‘ جمشید اس