تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے بہترین نصاب تعلیم مدارس میں جاری کیا عربی فارسی‘ ترکی‘ لاطینی‘ یونانی‘ بلگیرین وغیرہ بہت سی زبانوں میں سلطان فاتح بلا تکلف نہایت فصاحت کے ساتھ گفتگو کر سکتا تھا‘ اس نے اپنی قلمرو کے اندر جو قانون جاری کیا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ سب سے پہلے قرآن مجید کے موافق عمل در آمد ہو اس کے بعد سنت ثابتہ اور احادیث صحیحہ کی پیروی کی جائے اس کے بعد فقہائے اربعہ سے امداد لی جائے ان تینوں مرحلوں کے بعد چوتھا مرتبہ احکام سلطانی کا تھا‘ سلطان اگر کوئی حکم جاری کرتا اور وہ حکم قرآن و احادیث کے خلاف ہوتا تو علماء کو اجازت تھی کہ وہ بلا تامل اس حکم کا خلاف شرع ہونا ثابت کر دیں تاکہ سلطان فوراً اپنے حکم کو واپس لے لے۔ اس نے اپنے ممالک مقبوضہ کو صوبوں‘ کمشنریوں اور ضلعوں میں تقسیم کرا دیا تھا ضلع کے کلکٹر کو بیلر بیگ اور کمشنر کو سنجق اور صوبہ دار کو پاشا کا لقب دیا گیا تھا‘ اسی سلطان نے قسطنطنیہ یعنی دربار سلطنت کو باب عالی کے نام سے موسوم کیا جو اس ہمارے زمانہ تک باب عالی کے نام سے مشہور رہا‘ سخت حیرت ہوتی ہے کہ ایسا جنگ جو اور فاتح سلطان علمی مشاغل کے لیے کس طرح وقت نکال لیتا تھا‘ سلطان فاتح کو اپنے وقار اور رعب کے قائم رکھنے کا یہاں تک خیال تھا‘ کہ اپنے وزیراعظم سے بھی کبھی خوش طبعی یا بے تکلفی کی گفتگو نہ کرتا تھا ضرورت کے بغیر کبھی دربار یا مجلس جما کر نہیں بیٹھتا تھا‘ بلکہ اس کو اپنی فرصت کے اوقات کا بالکل تنہائی میں گزارنا بہت محبوب تھا اس کی کوئی بات لغو‘ اور حکمت سے خالی نہ ہوتی تھی‘ ایک طرف وہ علماء کا بے حد قدردان اور ان کی عزت وقار کے بڑھانے کا خواہاں تھا‘ لیکن دوسری طرف وہ عالم نما جاہلوں اور کٹھ ملائوں سے سخت متنفر تھا‘ نماز و روزے کا سخت پابند اور باجماعت نمازیں ادا کرتا تھا‘ قرآن مجید سے اس کو بے حد محبت تھی‘ عیسائیوں اور دوسرے غیر مذہب والوں کے ساتھ اس کا برتائو نہایت کریمانہ اور روادارانہ تھا‘ پابندی شرع میں بے جا سختی اس کو پسند نہ تھی الدین یسر اس کا خصوصی عقیدہ تھا۔ وہ اس راز سے واقف تھا کہ کٹھ ملائوں نے دین کے معاملہ میں بے جا سختی اور تشدد کو کام میں لا کر اور ذرا ذرا سی بے حقیقت باتوں پر نامناسب زور دے کر دین اسلام کو لوگوں کے لیے موجب وحشت بنا دیا ہے اس لیے وہ دین اسلام کی ہر ایک رخصت سے فائدہ اٹھا لینے کو جائز جانتا تھا چنانچہ اس کے دربار میں وینس سے ایک مشہور مصور و نقاش آیا اور اپنے کمال کا اظہار کرنے کے لیے سلطان کے دربار کی کئی تصویریں تیار کیں سلطان نے اس کو اجازت دے دی اور پھر اس کی تصویروں کو دیکھ کر ان کے نقائص اس کو بتائے‘ اس قسم کی معمولی آزاد خیالیوں کو دیکھ کر اس زمانہ کی فتویٰ باز پیدا وار یعنی پیشہ ور مولویوں نے سلطان محمد خاں ثانی فاتح قسطنطنیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور سلطان کو لا مذہب اور دہریہ ٹھہرایا ان تنگ خیال‘ پست حوصلہ‘ تہی ظرف‘ دشمن اسلام فتوے بازوں کی نسل بہت پرانی ہے یہ لوگ کچھ اسی زمانہ یا سلطان فاتح کے زمانہ میں نہ تھے بلکہ اس سے بہت پہلے بھی دنیا میں موجود تھے جن کا ذکر اسی تاریخ کی گذشتہ جلد میں غالباً آ چکا ہے‘ سلطان فاتح کی نظر اپنی سلطنت کے ہر ایک صیغے اور ہر ایک محکمے پر رہتی تھی‘ مجرموں کو سزا دینے میں وہ بہت چست اور کار گذار اہل کاروں کی قدر دانی میں بہت مستعد تھا۔