تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے میدان صاف ہو گیا۔ ادھر فصیل کا یہ حصہ گرا ادھر عین اسی وقت بندرگاہ کی طرف سے بحری فوج نے ایک برج پر قبضہ کر کے سلطانی علم بلند کر دیا۔ اس علم کو بلند اور سامنے کی دیوار کو منہدم دیکھ کر ادھر سے بلا تامل سلطان کی رکابی فوج نے حملہ کر دیا۔ عیسائیوں نے خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر وہ دست بدست لڑائی میں مسلمانوں سے عہدہ برآنہ ہو سکے ساتھ ہی ہر طرف سے حملہ آوروں نے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی دروازوں کو توڑ توڑ کر اندر گھس گئے اور شہر کے چاروں طرف فصیل کے اندرونی جانب عیسائیوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے۔ سلطان اپنے گھوڑے پر سوار اسی منہدمہ فصیل کے راستے شہر میں داخل ہوا اور داخل ہو کر سیدھا سینٹ ایا صوفیہ کے گرجے کی طرف روانہ ہوا اس گرجے میں پہنچتے ہی اس نے اذان دی اور پہلی مرتبہ اس جگہ اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی یہاں اس نے اور اس کے ہمراہیوں نے نماز ظہر ادا کی اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا۔ اس کے بعد قسطنطین کی تلاش میں لوگوں کو بھیجا سینٹ رومانس کے قریب جس طرف فصیل منہدم ہوئی تھی وہاں عیسائیوں نے حملہ آوروں کا خوب جم کر مقابلہ کیا تھا اور سب سے زیادہ کشت و خون وہیں ہوا تھا اسی جگہ لاشوں کے درمیان قسطنطین کی لاش ملی۔ جس کے جسم پر صرف دو زخم آئے تھے۔ قسطنطین کا سر کاٹ کر لوگ سلطان محمد خان ثانی کی خدمت میں لائے اس طرح فتح قسطنطنیہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ سلطان اس کے بعد قصر شاہی کی طرف متوجہ ہوا وہاں اس نے دیکھا تو ہو کا عالم تھا۔ اس خاموشی و ویرانی کو دیکھ کر بے اختیار سلطان کی زبان سے نکلا کہ ؎ پردہ داری می کند بر قصر قیصر عنکبوت بوم نوبت می زند بر گنبد افراسیاب یہ فتح ۲۰ جمادی الاول ۸۵۷ھ مطابق ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو وقوع پذیر ہوئی۔ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ فصیل قسطنطنیہ کا گرنا انہیں بزرگ باخدا کی دعا کا نتیجہ تھا اور اسی لیے مشہور ہے کہ قسطنطنیہ دعا کے ذریعہ فتح ہوئی تھی۔ اسی تاریخ سے سلطان محمد خان ثانی سلطان فاتح کے لقب سے مشہور ہوا۔ چالیس ہزار عیسائی مسلمانوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئے اور ساٹھ ہزار جنگجو عیسائیوں کو مسلمانوں نے گرفتار کیا۔ بہت تھوڑے ایسے تھے جو فتح قسطنطنیہ کے بعد کسی نہ کسی طرح خشکی یا سمندر کے راستے بچ کر نکل گئے۔ قیصر کے خاندان کا کوئی آدمی گرفتار نہیں ہوا بلکہ سب بچ کر نکل بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ اکثر اٹلی میں اور کمتر دوسرے مقامات میں جا کر آباد و پناہ گزین ہوئے۔ قیصر قسطنطین کا ایک پوتا چند روز کے بعد مسلمان ہو گیا تھا۔ اور قسطنطنیہ میں آ کر رہنے لگا تھا۔ بالآخر بہت جلد اس خاندان کا نام و نشان گم ہو گیا۔ قسطنطنیہ کے باشندوں کو سلطان فاتح نے امن و امان عطا کی جو لوگ اپنے مکانوں اور جائدادوں پر قابض و آباد رہے اور بخوشی اطاعت قبول کی ان کو اور ان کے مال اموال کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ عیسائیوں کے معبدوں اور گرجوں کو (بجزایا صوفیہ کے) علیٰ حالہ قائم اور عیسائیوں کے تصرف میں رکھا۔ قسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو سلطان محمد خان ثانی نے اپنی خدمت میں بلا کر خوش خبری سنائی کہ آپ بدستور یونانی چرچ کے پیشواء رہیں گے۔ آپ کے مذہبی اختیارات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سلطان محمد خان ثانی فاتح نے خود یونانی چرچ کی سرپرستی قبول کی اور بشپ اعظم اور پادریوں کو وہ اختیارات حاصل ہو گئے جو عیسائی سلطنت میں