تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قائم تھی۔ لیکن بحر روم میں اس کی بحری طاقت سب پر فائق تھی۔ اس کے بعد سلطان کے لیے کوئی خطرہ اور کوئی جنگ بظاہر موجود نہ تھی اور سلطان اپنی مملکت کو وسیع کرنے کے مقابلے میں اندرونی طور پر اس کو مضبوط کرنا چاہتا تھا چنانچہ سلطان محمد خان نے جابجا شہروں اور قصبوں میں مدرسے قائم کیے۔ علماء کی قدر دانی کی۔ راستوں کے امن و امان اور تجارت کی گرم بازاری کا بندوبست کیا غرض کہ اس سلطان نے وہ طرز عمل اختیار کیا جس کی وجہ سے دوستوں اور دشمنوں دونوں میں اس کی قبولیت بڑھ گئی اور سب کو اس کو تعریف کرنی پڑی۔ اس کی رعایا نے اس کو چلپی یعنی بہادر و سنجیدہ مزاج کا خطاب دیا۔ اور تمام ملکوں میں وہ سلطان صلح جو‘ مشہور ہوا مگر باوجود اس کے اس کی عملداری میں ایک فتنہ برپا ہوا۔ جو اس کی فوج کے قاضی نے جس کا نام قاضی بدرالدین تھا برپا کیا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ایک نو مسلم یہودی مرتد ہو کر اس بات کا محرک ہوا کہ سلطان محمد خان کو معزول کر کے جمہوری ریاست قائم کرنی چاہیے۔ قاضی بدر الدین اس کا ہم خیال ہو گیا اور ان دونوں نے ایک ترک مصطفیٰ نامی کو جو کوئی تعلیم یافتہ شخص نہ تھا اپنا مذہبی پیشوا بنایا اور یورپ و ایشیا دونوں علاقوں میں اپنے خیالات کی اشاعت شروع کر کے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کیا۔ اس بغاوت نے ترقی کر کے خطرناک صورت اختیار کر لی۔ اور سلطان محمد خان کو بڑی فکر پیدا ہوئی اس بغاوت نے اندر ہی اندر اس کی رعایا کو مائوف کرنا شروع کر دیا۔ یہ بغاوت اس لیے اور بھی جلد اور زیادہ کامیاب ہو سکی کہ سلطان محمد خان نے عیسائی سلاطین سے دوستی کے عہد نامے کر کے اچھے تعلقات قائم کیے تھے اس کا دوستانہ برتائو جو عیسائیوں کے ساتھ تھا عام طور پر اس کی مسلمان رعایا کو ناپسند اور گراں گزرتا تھا عوام اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ کہ اس زمانے میں صلح و آشتی ہی کی حکمت عملی سلطنت عثمانیہ کے لیے زیادہ مفید ہے۔ چنانچہ ان کو جب مذکورہ باغیوں نے بھڑکایا تو وہ فوراً ان کی باتوں میں آ گئے۔ آخر سلطان محمد خان نے اس بغاوت کے فرو کرنے میں پوری ہمت اور مستعدی سے کام لے کر چند روز میں اس کا خاتمہ کر دیا اور تینوں باغی مارے گئے۔ اس خطرہ سے نجات پا کر سلطان محمد خان کو ایک خطرناک باغی کا مقابلہ کرنا پڑا۔ جنگ انگورہ میں سلطان بایزید خان یلدرم کا ایک بیٹا مصطفیٰ نامی مارا گیا تھا۔ مگر جنگ کے بعد اس کی لاش کا کوئی پتہ نہ چلا۔ تیمور نے بھی جنگ کے بعد مصطفیٰ کی لاش کو تلاش کرایا مگر کہیں دستیاب نہ ہوئی اس لیے مصطفیٰ کا مارا جانا مشتبہ رہا تھا۔ اب سلطان محمد خان کے آخر عہد حکومت یعنی ۸۲۴ھ میں ایک شخص نے ایشیائے کوچک میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ میں مصطفیٰ ابن بایزید یلدرم ہوں وہ صورت و شکل میں بھی مصطفیٰ سے مشابہ تھا اس لیے بہت سے ترکوں نے اس کے دعوے کو تسلیم کر لیا اور سمرنا کے عامل جنید اور صوبہ دار ولیشیا نے اس کے اس دعوے کی اس لیے اور بھی تصدیق کی کہ وہ محمد خان سے خوش نہ تھے چنانچہ مصطفیٰ مذکور ان صوبہ داروں کی امداد سے گیلی پولی میں پہنچ کر تھسلی کے قریب علاقے پر قابض ہو گیا۔ سلطان محمد خان اس خبر کو سنتے ہی فوراً فوج لے کر مقابلے پر پہنچا اور سالونیکا کے قریب ایک سخت لڑائی کے بعد مصطفیٰ مذکور شکست فاش کھا کر بھاگا اور قیصر قسطنطنیہ کے پاس پہنچ کر پناہ گزین ہوا۔ سلطان محمد خان نے قسطنطنیہ کے بادشاہ کو لکھا کہ مصطفیٰ ہمارا باغی ہے۔ اس کو ہمارے پاس بھیج دو لیکن قیصر نے اس کے واپس