تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
قسطنطنیہ کو بھی تھسلی کے وہ قلعے جو ترکوں کے قبضے میں چلے آتے تھے اور بحیرہ اسود کے ساحل پر بعض مقامات جن کی جمہوری ریاست جو ایک زبردست بحری طاقت تھی ترکوں سے برسر پرخاش رہتی تھی سلطان محمد خان کی سلامت روی اور صلح پسندی کا شہرہ سن کر انہوں نے بھی صلح کی درخواست پیش کی اور سلطان محمد خان نے بلا تامل ان سے صلح کر لی۔ ولیشیا۔ البانیا۔ بوسنیا‘ وغیرہ ترکی صوبے جنگ انگورہ کی خبر سنتے ہی خود مختار ہو گئے تھے۔ اور ہر ملک میں عیسائیوں نے اپنی سلطنتیں قائم کر لی تھیں ان سب کو اندیشہ تھا کہ عثمانی سلطان تخت نشینی کے بعد مطمئن ہو کر اپنے باپ کے صوبوں کو پھر اپنی سلطنت میں شامل کرنا چاہے گا اور ہمارے اوپر حملہ آور ہو گا۔ سلطان محمد خان کی اس کامیابی کا حال سن کر ان سب نے ڈرتے ڈرتے اپنے اپنے سفیر دربار سلطانی میں مبارک باد کے لیے روانہ کیے سلطان محمد خان نے ان سفیروں سے نہایت تپاک کے ساتھ ملاقات کی اور رخصت کرتے وقت ان سفیروں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم اپنے آقائوں سے جا کر میری طرف سے یہ ضرور کہہ دینا۔ ’’میں سب کو امن دیتا ہوں اور سب سے امن قبول کرتا ہوں اللہ تعالیٰ امن و امان کو پسند کرتا اور فساد کو برا جانتا ہے‘‘۔ سلطان محمد خان کے اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں امن و امان قائم ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ جوا بھی ایک مہلک اور خطرناک بیماری سے اٹھی تھی اس کے لیے حرکت اور جسمانی ریاضت بے حد مضر تھی۔ اس کو چند روز آرام کرنے اور پرہیزی غذا کھانے کی سخت ضرورت تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ سلطان محمد خان نہایت ہی موزوں سلطان تخت عثمانی پر متمکن ہوا اور اس کا طرز عمل ہر ایک اعتبار سے سلطنت کی تقویت اور آئندہ ترقیات کا موجب ثابت ہوا۔ یورپ میں اس طرح سلطان محمد خان نے امن و امان قائم کر لیا مگر ایشیائے کوچک میں بغاوتوں کا سلسلہ موجود تھا۔ چنانچہ سلطان محمد خان کو مع فوج خود ایشیائے کوچک میں جانا پڑا وہاں اس نے اول سمرنا کی بغاوت فرو کی اس کے بعد قرمانیہ کے باغیوں کو طاقت کے ذریعے خاموش و محکوم بنایا گیا پھر سلطان نے یہ عاقلانہ تدبیر کی کہ ایشیائے کوچک کی مشرقی حدود کے متصل جو ریاستیں یا سلطنتیں تیمور کی وفات کے بعد قائم ہوئیں۔ ان سب سے دوستانہ تعلقات قائم کیے اور تمام ایشیائے کوچک کو اپنے قبضے میں لے کر اطمینان حاصل کیا کہ پھر کوئی حملہ تیموری حملہ کی مانند نہ ہو سکے۔ ۸۲۰ھ میں جب کہ سلطان محمد خان ایشیائے کوچک سے ایڈریا نوپل میں آ چکا تھا تو درہ دانیال کے قریب بحیرہ ایجین میں وینس کے جنگی بیڑہ سے سلطان کے جنگی بیڑہ کی سخت لڑائی ہوئی جس میں ترکی بیڑے کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس لڑائی کا باعث یہ تھا کہ بحیرہ ایجین کے جزیروں کے رہنے والے برائے نام وینس کی جمہوری حکومت کے ماتحت تھے۔ یہ لوگ سلطان کے ساحلی علاقے مثلاً گیلی پولی وغیرہ پر چھاپے مارتے رہتے تھے۔ سلطان محمد خان نے ان کی سرکوبی کے لیے اپنے جنگی بیڑہ کو حکم دیا لیکن اس کا مقابلہ وینس کے بیڑہ سے ہو گیا جو بہت طاقتور تھا لہٰذا سلطان کی بحری فوج کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اس بحری لڑائی کے بعد بہت جلد پھر وینس کے ساتھ عہد نامہ صلح کی تجدید ہو گئی۔ وینس ایک بہت چھوٹی سی ریاست تھی جو جمہوری اصول پر