تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو فتح کر لیا تھا۔ اب سلطان بایزید خان کو قیصر قسطنطنیہ کی ریشہ دوانیوں اور نیش زنیوں کا بخوبی علم ہو چکا تھا لہٰذا اس نے ایتھنز کی فتح کے بعد قسطنطنیہ کے فتح کر لینے اور اس عیسائی سلطنت کے مٹا دینے کا ارادہ کیا۔ لیکن قیصر نے اس مرتبہ بھی اپنی ہوشیاری سے کام لیا اور فوراً سلطان کا باج گزار بن کر وعدہ کیا کہ دس ہزار ڈاکٹ سالانہ بہ طور خراج ادا کیا کروں گا۔ نیز قسطنطنیہ میں ایک مسجد مسلمانوں کے لئے بنوادوں گا اور ایک قاضی مقرر کر دوں گا جو مسلمانوں کے تمام معاملات میں حاکم ہو گا۔ مسلمان تاجروں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے گی۔ ان شرائط پر سلطان بایزید خان یلدرم رضا مند ہو گیا۔ اور اس نے قسطنطنیہ چھوڑ دیا۔ ورنہ جو کام سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا وہ ۸۰۰ھ میں سلطان بایزید خان یلدرم کے ہاتھوں سے پورا ہو چکتا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ تیمور خراسان و ایران میں اپنی حکومت کی بنیاد مضبوط کر کے اور ترکمانوں کی گوشمالی سے فارغ ہو کر اپنے مقبوضات کو سلطان بایزید خان یلدرم کے مقبوضات کی سرحد تک پہنچا کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ قیصر قسطنطنیہ جو یورپ میں اپنی ریشہ دوانیوں اور عیسائیوں کی زور آزمائیوں کے نتائج جنگ کسووا اور جنگ نکوپولس میں دیکھ چکا تھا۔ اب اپنی اس مجبوری اور ذلت کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر آمادہ کوشش ہوا۔ سلطان بایزید خان یلدرم جب یونان اور ایتھنز کو فتح کر چکا اور قیصر کا حال بہت ہی پتلا ہونے لگا تو اس نے فوراً ایک قاصد تیمور کی خدمت میں روانہ کیا۔ اور اس کو ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ میری سلطنت بہت پرانی ہے۔ آنحضرت e اور خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی قسطنطنیہ کے اندر ہماری سلطنت موجود تھی۔ اس کے بعد بنوامیہ اور بنوعباس کے زمانے میں بھی خلفاء سے بارہا ہماری صلح ہوئی اور کسی نے قسطنطنیہ کے لینے کا قصد نہیں فرمایا۔ لیکن اب عثمانی سلطان نے ہمارے اکثر مقبوضات چھین لئے ہیں۔ اور ہمارے دارالسلطنت قسطنطنیہ پر اس کا دانت ہے۔ ایسی حالت میں سخت مجبور ہو کر ہم آپ سے امداد کے خواہاں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ آپ کے سوا ہم اور کسی سے خواہان امداد ہو بھی نہیں سکتے۔ آپ کو اگر بایزید خان یلدرم کے مسلمان اور ہمارے عیسائی ہونے کا خیال ہو تو آپ کو واضح رہے کہ بایزید خان کو اس طرف یورپ میں مسلسل فتوحات حاصل ہو رہی ہیں اور اس کی طاقت بڑی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہے وہ بہت جلد اس طرف سے مطمئن اور فارغ ہو کر آپ کے مقبوضہ ممالک پر حملہ آور ہو گا۔ اور اس وقت آپ کو اس کے زیر کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ بایزید خان نے سلطان احمد جلائر اور قرا یوسف ترکمان کو جو آپ کے مفرور باغی ہیں اپنے ہاں عزت کے ساتھ مہمان رکھ چھوڑا ہے۔ اور یہ دونوں باغی اس کو آپ کے خلاف جنگ کرنے اور مشورہ دینے میں برابر مصروف ہیں۔ یہ بات بھی آپ کے لئے کچھ کم بے عزتی کی نہیں ہے کہ آپ آپ کے باغی سلطان بایزید خان کے پاس اس طرح عزت و اکرام کے ساتھ رہیں۔ اور ان کو واپس طلب نہ کر سکیں۔ پس مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایشیائے کوچک پر حملہ کریں کیونکہ اس ملک کو قدرتی طور پر آپ کے قبضے میں رہنا چاہیئے۔ اور بایزید خان یلدرم کے فتنے سے ہم کو بچائیں ہم سے جو کچھ ممکن ہو گا آپ کی امداد کریں گے۔ قیصر کا یہ خط اگرچہ اپنی نفسانی اغراض پر مشتمل تھا۔ اور تیمور ایسا بیوقوف نہ تھا کہ اس کی خود غرضانہ باتوں میں آ جاتا۔ لیکن اس خط میں باغیوں کی پناہ دہی کا تذکرہ کچھ ایسے الفاظ میں کیا گیا تھا جن کا تیمور کے دل پر کچھ نہ کچھ اثر