تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے نام سے پکارے گئے ان سلاجقہ روم کے بعد عثمان خان اول نے اپنی سلطنت سلطنت ایشیائے کوچک میں قائم کی اور قریباً تمام ایشیائے کوچک پر قابض ہو گیا تو وہ بھی سلطان روم کہلایا پھر اس کے بعد سے آج تک عثمانی سلاطین سلطان روم ہی کہلائے جاتے ہیں۔ قسطنطنیہ کے قیصر نے جب عیسوی مذہب قبول کیا تو اس عیسوی سلطنت اور ایران کی مجوسی سلطنت میں بار بار لڑائیاں ہوئیں۔ ان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ملک عرب میں اسلامی سلطنت نے قائم ہو کر مجوسیوں اور عیسائیوں کو مبہوت کر دیا۔ مجوسی سلطنت تو پاش پاش ہو کر معدوم ہو گئی۔ لیکن قسطنطنیہ کی عیسائی سلطنت عرصہ دارز تک قائم رہی۔ ہم جس زمانے کی تاریخ بیان کر رہے ہیں اس زمانے میں بھی یہ عیسائی سلطنت موجود ہے۔ خلفائے راشدین کے عہد سعادت میں شام و فلسطین و مصر سے قیصر روم کی عیسائی حکومت بالکل مٹا دی گئی تھی۔ اس کے بعد خلفائے بنو امیہ اور خلفائے بنو عباس کے زمانے میں قیصر روم کے ساتھ برابر لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس کا مختصر طور پر خلفاء کہ حالات میں کہیں کہیں ذکر آتا رہا ہے۔ ایشیائے کوچک کا ایک ملک قریباً سات سو سال سے برابر مسلمانوں اور عیسائیوں کا میدان جنگ بنا ہوا تھا کسی زمانے میں مسلمانوں کو دھکیلتے ہوئے در دانیال اور بحیرہ مار مورا تک لے جاتے تھے۔ اور کبھی عیسائی مسلمانوں ریلتے ہوئے ایران و کردستان تک چلے آتے تھے۔ عیسائیوں کی اس سلطنت کو قدرتی طور پر مسلمانوں کے مقابلہ میں دیر تک زندہ رہنے کا اس لئے موقعہ مل گیا کہ آپس کی نااتفاقیوں اور خانہ جنگیوں سے مسلمانوں کو ایسا موقعہ میسر ہی نہ آیا کہ وہ اس عیسائی رومی سلطنت کا قصہ پاک کرتے۔ اس رہے سہے کام کو ترکان عثمانی نے پورا کیا اور اسی لئے وہ عالم اسلام کے محبوب و مقتدا سمجھے گئے۔ ہم جس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں یہ وہ زمانہ ہے کہ یورپ کے صلیبی سیلاب شام و فلسطین کے میدانوں میں بار بار موج زن ہو چکے ہیں عیسائیوں کے مجاہدین مسلمانوں کے مقابلے میں شکست پاپا کر اور مسلمانوں کی علمی و اخلاقی ترقیات سے متاثر ہو ہو کر یورپ میں واپس جا کر اور یورپ کے تمام ملکوں میں پھیل کر عیسائی ممالک کو بیدار اور ترقی کی طرف مائل و متوجہ کر چکے ہیں۔ اس زمانہ کی نسبت عیسائیوں کا یہ کہنا کہ رومی سلطنت بہت ہی غافل اور کمزور تھی۔ سراسر غلط ہے۔ عیسائیوں میں مسلمانوں کی مخالفت کے لئے اتفاق اور جوش بہ درجہ اتم پیدا ہو چکا تھا۔ قسطنطنیہ کا دربار سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ قسطنطنیہ کی سلطنت نسبتاً سب سے زیادہ طاقتور اور فنون جنگ سے واقف اور مقابلہ کی اہلیت رکھتی تھی اس سے پہلے زمانے میں یورپ کی دوسری سلطنتیں قسطنطنیہ کی سلطنت سے رقابت بھی رکھتی تھیں۔ لیکن لڑائیوں کے بعد تمام یورپ کی ہمدردی قسطنطنیہ کے قیصر سے متعلق تھی۔ قیصر قسطنطنیہ کے تعلقات صرف یورپ کے سلاطین تک محدود نہ تھے۔ بلکہ وہ مسلمانوں کے ہر ایک دشمن کو اپنا دوست سمجھ کر اس سے محبت و مودت کے تعلقات رکھتا تھا۔ چنگیز خان اور اس کی اولاد کو فاتح اور نامسلمان دیکھ کر قیصر قسطنطنیہ کے سفیر مغلوں کے دربار میں قراقورم اور چین تک پہنچے ہوئے تھے اور ابھی آگے چل کر معلوم ہو گا کہ قسطنطنیہ کے فرماں روا کو اس میں بھی تامل نہ تھا۔ کہ وہ اپنے مد مقابل اور حریف کو اپنی بیٹی دے کر اپنا موافق بنانے کی کوشش کرے اور اس کے خطرہ سے محفوظ ہو جائے اور اپنا کام نکال لے۔ مسلمانوں کی جمعیت میں پھوٹ ڈال کر ان کو کمزور و برباد