تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موڑ کر مغلوں کی طرف متوجہ ہو۔ چنانچہ قیصر کو ایک حد تک اپنی اس کوشش میں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ مغلوں نے قیصر کے ابھارنے سے عثمان خان کے ملک پر حملے شروع کر دیئے۔ مگر چونکہ عثمان خان کو عیسائیوں کے مقابلے میں پہیم فتوحات حاصل ہوئی تھیں۔ اس لیے اس کی فوج کے دل خوب بڑھ گئے تھے اور فتوحات ہی ایسی چیز ہیں جو جنگ جو قوموں میں ہمت اور جوش پیدا کر دیا کرتی ہیں چنانچہ عثمان خان نے اپنے بیٹے ار خان کو جو صف شکنی میں اپنا نظیر نہیں رکھتا تھا اپنی فوج کا ایک حصہ دے کر مغلوں کے حملوں کو روکنے پر مامور کیا اور خود بقیہ فوج لے کر رومیوں پر پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ حملے کرنے لگا۔ جنگ جو اور سپاہی پیشہ قوموں کے لیے جنگ کے ایام عید کی خوشی لے کر آیا کرتے ہیں۔ رعایا نے بھی اپنے بہادر فرماں روا کا دل سے ساتھ دیا اور ارخان نے مغلوں کے ہر ایک حملہ کو بڑی خوبی کے ساتھ روکا اور ہر مرتبہ ان کو شکست دے کر پیچھے ہٹا دیا۔ یہاں تک کہ مغل تھک کر بیٹھ رہے اور اپنی حملہ آوری کے اس ناستودہ سلسلہ کو ترک کر دیا۔ ار خان اس طرف کا انتظام کر کے باپ سے جا ملا۔ دونوں باپ بیٹوں نے عیسائیوں کو مار مار کر پیچھے ہٹانا اور بھگانا شروع کر دیا۔ عثمان خان ایشیائے کوچک کو فتح کرتا ہوا شمال میں بحراسود کے ساحل تک پہنچ گیا۔ ادھر ار خان نے عیسائیوں کو مغرب کی طرف بھگاتے ہوئے بروصہ کو فتح کر لیا۔ بروصہ قیصر روم کا ایک زبردست شہر ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کے قریب تھا۔ اس شہر کو جب ار خان نے فتح کیا ہے۔ تو عثمان خان ساحل بحرا سود تک پہنچ کر قرا حصار میں سالماً غانماً واپس آ گیا اور تھا اتفاق سے بیمار تھا۔ بروصہ کی فتح کا حال سن کر عثمان خان نے فوراً بروصہ کا قصد کیا اور اپنے سرداروں کو حکم دیا کہ اگر میں بروصہ پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں فوت ہو جائوں تو تم میری لاش کو بروصہ لے جا کر دفن کرنا اور وہیں میرا مقبرہ بنانا اور آئندہ میرے بیٹے ار خان کو بروصہ ہی میں رکھنا اور اسی شہر کو دارالسلطنت بنانا چاہیے۔ چنانچہ عثمان خان بروصہ پہنچ کر کئی روز کے بعد فوت ہوا اور اسی شہر میں اس کی وصیت کے موافق اس کا مقبرہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ ۷۲۷ھ کا ہے۔: عثمان خان نے مرتے وقت اپنے بیٹے ار خان کو وصیت کی کہ مجھ کو اپنے مرنے کا کوئی غم اس لیے نہیں ہے کہ تجھ جیسا لائق بیٹا میرا جانشین ہو گا۔ تجھ کو چاہیئے کہ دین داری‘ نیکی‘ رحم دلی اور عدل کو کبھی ترک نہ کرے۔ رعیت کی حفاظت کرنا اور احکام شرع کو رواج دینا تیرا سب سے ضروری اور مقدم کام ہونا چاہیے۔ آخر میں اس نے بیٹے کو تاکید کی کہ بروصہ ہی کو اپنا دارالسلطنت بنایا جائے۔ اس وصیت سے بھی عثمان خان کی مآل اندیشی کا بہت بڑا ثبوت ملتا ہے وہ جانتا تھا کہ کہ قونیہ میں ایسے افراد موجود ہیں جو کسی نہ کسی وقت میرے خاندان کی بیخ کنی پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ ادھر اس کو معلوم تھا کہ مغلوں کو مسلمانوں سے محض اسلام کی وجہ سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور وہ خود اسلام قبول کرتے جاتے ہیں۔ اگر دارالسطنت قونیہ رہا تو خواہ مخواہ مغلوں اور دوسرے سرداروں کے ساتھ جھگڑے برپا رہیں گے حالانکہ مسلمانوں کے لیے سب سے بہتر میدان عیسائی ممالک ہیں۔ لہٰذا بروصہ کے دارالسلطنت ہونے سے عیسائیوں کو لازماً ایشیائے کوچک کے خیال سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اور وہ در دانیال سے اس طرف آنے کی کبھی جرأت نہ کر سکیں گے نیز بروصہ کے بادشاہوں کو بآسانی یورپ پر حملہ آور ہونے اور بلقان کے فتح کرنے موقعہ ملے گا۔ عثمان کا یہ خیال بہت صحیح تھا۔ اس