تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوا‘ اس نے اپنے فرقہ میں دہریت اور بے دینی کو بہت ترقی دی۔ ۵۶۱ھ میں جب یہ فوت ہوا تو اس کی جگہ اس کا بیٹا علائوالدین محمد تخت نشین ہوا۔ اس کے زمانے میں امام فخرالدین رازی نے آذر بائیجان سے رے میں آ کر سلسلۂ درس جاری کیا وہ اپنے وعظ و درس میں فرقۂ ملاحدہ کے خلاف اکثر فرمایا کرتے تھے۔ تاکہ لوگ ان کی طرف یعنی فدائیوں کی جانب مائل نہ ہوں۔ فدائیوں نے رے میں پہنچ کر امام فخرالدین رازی کو قتل کی دھمکیاں دیں اور ان کو متنبہ کیا کہ اگر تم ہمارے خلاف باتیں بیان کرنے سے باز نہ آئو گے تو قتل کر دئیے جائو گے۔ اس کے بعد امام موصوف رے سے روانہ ہو کر غور میں غیاث الدین غوری اور اس کے بھائی شہاب الدین غوری کے پاس چلے آئے۔ اور سلطان شہاب الدین کے ساتھ ہندوستان کے سفروں میں بھی شامل رہے۔ چنانچہ سلطان شہاب الدین غوری کی فوج میں آپ بطور امام مامور تھے یعنی نمازوں کی امامت آپ ہی فرماتے تھے۔ اسی سلسلہ میں سلطان شہاب الدین کی شہادت فدائیوں کے ہاتھ سے ۶۰۲ھ میں ہوئی جس کے بعد امام فخرالدین رازی خوارزم شاہ کے پاس چلے گئے۔ علائوالدین محمد کے بعد اس کا بیٹا جلال الدین حسن الموت میں تخت نشین ہوا۔ اس نے باپ اور دادا کے عقائد سے توبہ کی اور اپنی اس توبہ کا حال تمام سلاطین اسلام کے پاس لکھ کر بھیجا چنانچہ یہ عالم اسلام میں جلال الدین حسن نو مسلم کے نام سے مشہور ہوا۔ خلیفہ ناصر عباسی بھی جلال الدین سے بہت خوش ہوا۔ چنانچہ جب جلال الدین حسن کی ماں حج کرنے کے لئے خانہ کعبہ میں گئی تو خلیفہ کے حکم سے سلطان محمد خوارزم شاہ کا رایت۱؎ جلال الدین حسن کی ماں کے رایت سے پیچھے رکھا گیا اس طرح خلیفہ نے جلال الدین حسن کی ہمت افزائی کی مگر سلطان محمد خوارزم شاہ اس بات سے بے حد ناخوش ہوا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ خوارزم شاہ نے خلیفۂ بغداد کے خلاف مہم تیار کی۔ ۱؎ یعنی جھنڈا۔ جلال الدین حسن کی وفات کے بعد اس کا نو سالہ بیٹا علائوالدین محمد تخت نشین ہوا چونکہ یہ لڑکا تھا۔ اس کے وقت میں سلطنت کے اندر بہت سے فتنے پیدا ہوئے اور مذہبی معاملات میں بھی تمسخر انگیز باتوں کا اظہار ہونے لگا۔ نصیرالدین طوسی بھی اسی کے عہد میں تھا۔ ۶۵۳ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ اور اس کا بیٹا رکن الدین خور شاہ تخت نشین ہوا۔ ہلاکو خان نے حملہ کر کے رکن الدین خورشاہ کو گرفتار اور اس کے قلعوں کو مسمار کر دیا۔ اس طرح اس خاندان کا خاتمہ ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں سر آغا خان جو بمبئی وغیرہ کی طرف بوہروں کی قوم۱؎ کے پیر سمجھے جاتے ہیں اسی خاندان کی یادگار ہیں۔ ---