تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوا۔ دونوں بھائیوں کا نام خطبہ میں پڑھا جانے لگا۔ طغر بیگ نے خراسان پر قابو پا کر خوارزم کے ملک کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد رومیوں پر حملہ آور ہو کر وہاں سے کامیاب واپس ہوا۔ اس کے بعد بغداد پہنچا۔ دیلمیوں کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ اور خلیفہ بغداد کا مدارالمہام اور حامی خلافت مقرر ہوا۔ خلیفہ کے دربار سے خلعت و خطاب پایا۔ ۴۴۷ھ میں بغداد کے اند طغرل بیگ کا خطبہ پڑھا گیا۔ خاندان خلافت سے رشتہ داری کا شرف حاصل کر کے ۸ رمضان المبارک ۴۵۵ھ کو جمعہ کے دن ستر برس کی عمر میں طغرل بیگ نے وفات پائی چغر بیگ اس سے چار سال پہلے ۱۸ رجب ۴۵۱ھ کو فوت ہو چکا تھا۔ طغرل بیگ لاولد فوت ہوا۔ اس لیے اس کے بعد اس کا بھتیجا سلطان الپ ارسلان بن چغر بیگ اس کا جانشین اور مدارالمہام خلافت مقرر ہوا۔ ۴۶۵ھ میں بتاریخ ۱۰ ربیع الاول سلطان الپ ارسلان نو برس اور ڈھائی مہینے حکومت کرنے کے بعد فوت ہوا۔ سلطان الپ ارسلان بڑا ہی دین دار‘ عالی جاہ اور اپنے زمانے کا سب سے بڑا زبردست بادشاہ تھا۔ الپ ارسلان نے ایک مرتبہ صرف بارہ ہزار سواروں سے عیسائیوں کی تین لاکھ جرار فوج کو شکست فاش دے کر روم کے قیصر کو گرفتار کر لیا تھا۔ جس کا ذکر گذشتہ ابواب میں آ چکا ہے۔ الپ ارسلان کے بعد اس کا بیٹا ملک شاہ سلجوقی تخت نشین ہوا۔ الپ ارسلان کے بھائی قادرد نے بھتیجے کے خلاف علم مخالفت بلند کیا۔ مگر آخر گرفتار ہو کر مقتول ہوا۔ اسی قادر بیگ کی اولاد میں سلاجقہ کرمان کی حکومت کا سلسلہ جاری ہوا۔ ملک شاہ نے شام و مصر کو بھی اپنی حکومت میں شامل کیا۔ ادھر دریائے سیحون کے دوسری طرف تک اس کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ ملک شاہ کی حدود حکومت الپ ارسلان سے بھی زیادہ وسیع تھی۔ ایک مؤرخ کا بیان ہے کہ دیوار چین سے بحر قلزم تک ملک شاہ کا حکم جاری اور اس کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ ۴۸۴ھ میں ملک شاہ نے وفات پائی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا برکیارق تخت نشین ہوا۔ اور سلجوقیوں کا زوال شروع ہو گیا۔ برکیارق کے بعد اس کا بھائی محمد بن ملک شاہ ۴۹۶ھ میں تخت نشین ہوا۔ اس کے بعد سنجر بن ملک شاہ ۵۰۹ھ میں تخت نشین اور سلطان السلاطین۱؎ کے نام سے موسوم ہوا۔ اسی سے سلطان بہرام غزنوی نے دب کر خراج گزاری گوارا کی تھی۔ جب سلطان علاء الدین غوری جہاں سوز نے بہرام کو بے دخل کر کے غزنین کو فتح کیا۔ تو سلطان سنجر سلجوقی نے پہنچ کر علائو الدین غوری کو گرفتار کیا۔ ایک مرتبہ نواح بلخ میں ترکان غزنے موقعہ پا کر سلطان سنجر کو گرفتار کر لیا اور یہ ۱؎ حدیث میں ایسے القاب اور ناموں سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ جناب رسول اللہe نے فرمایا : ’’سب سے ذلیل ترین نام‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا نام ہے جو اپنا نام بادشاہوں کا بادشاہ رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب الادب‘ حدیث ۶۲۰۵۔ صحیح مسلم‘ کتاب الآداب)۔ بنا بریں ملک الملوک یعنی بادشاہوں کا بادشاہ اور شہنشاہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات جلیلہ ہے۔ چار سال تک ان کی قید میں رہا۔ اس عرصہ میں ترکان غزنے تمام ملک خراسان کو اپنی لوٹ مار سے تباہ و ویران کیا۔ آخر ان کی قید سے آزاد ہو کر پھر سلطان سنجر ملک خراسان پر قابض ہوا۔ اس کے بعد اس کے ایک خادم اور عامل خوارزم نے بغاوت و خود مختاری اختیار کی۔ اور خوارزم میں ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سلطنت کو دولت خوارزم شاہیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یوں سمجھنا چاہیئے کہ خوارزم شاہیوں اور