تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زیر آن گنج کرم بنہادہ است بنی نوع انسان کی فطرت ہے کہ جب تک اس میں جہالت و بے علمی کا زور شور ہوتا ہے۔ اس کے تمام کام شخصی حکومت کے ذریعہ ہی درست رہ سکتے ہیں چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں‘ کہ مطلق العنان شخصی حکومتوں کے تصور کو انسان کی ابتدائی حالت اور زمانہ جاہلیت سے جدا نہیں کر سکتے۔ عہد جاہلیت میں جمہوریت کے معنی بجز فساد اور فتنہ کے اور کچھ ہو بھی نہیں سکتے۔ مغل لوگ بھی چین و تبت و ترکستان کے پہاڑوں میں بدوانہ اور جاہلانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے ہاں قبیلہ کے سردار اور بادشاہ کا تصور نہایت عظیم الشان تھا۔ سردار قبیلہ کے اختیارات اور اس کی عظمت و شوکت اس قدر بڑھی ہوئی ہوتی تھی کہ افراد قبائل اس کو اللہ کے مجازی سمجھتے تھے۔ ہندوستان میں بھی راجہ اور مہاراجہ کی یہی حالت تھی۔ بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بادشاہ پرستی ممالک مشرقیہ کی خصوصیات میں داخل ہے۔ مغلوں نے چونکہ بہت جلد مشرقیہ ممالک کے تاجوں اور تختوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ لہٰذا ان کی حکومت میں بادشاہ پرستی کا ابتدائی تصور بدستور موجود رہا۔ اور متمدن و شائستہ ہونے کے باوجود بھی بادشاہ پرستی مغلوں کی قوم میں باقی رہی۔ اسلام اور فطرت انسانی بادشاہ پرستی میں حد سے زیادہ ترقی کرنے کو مضر انسانیت قرار دیتی ہے۔ مگر مغلوں کی اس بادشاہ پرستی سے اسلام کو یہ عظیم الشان فائدہ پہنچا کہ مغلوں کے صرف چند بادشاہوں کا اسلام میں داخل ہونا تمام قوم کے اسلام میں داخل ہونے کامو جب ہو گیا۔ یکایک ساری کی ساری قوم مسلمان ہو گئی۔ یہاں تک کہ مورخین نے صرف دو تین مغل سلاطین کے ابتداء اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بعد ہر ایک مغل بادشاہ اور اس کے امرا مسلمان نظر آتے ہیں۔ اور اس بات کو کہ کب کس نے اسلام کو قبول کیا قابل تذکرہ نہیں سمجھا گیا۔ کیونکہ سب کے سب ہی اسلام میں داخل ہو چکے تھے۔ صرف جوجی خان کی اولاد نے محض اس وجہ سے کہ وہ ممالک اسلامیہ سے دور دور رہے کسی قدر دیر میں اسلام قبول کیا مگر آخر ازبکوں کی تمام قوم اسلام میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ بھی کسی واقعہ سے ثابت نہیں ہو سکا کہ مغلوں نے اسلام کے قبول کرنے پر اپنے بادشاہ سے بغاوت کی اور محض اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اس کے دشمن بنے۔ انھوں نے اگر مسلمان بادشاہ ہونے کی مخالفت کی یا بغاوت کی تو محض مادی اور دنیوی اغراض کی وجہ سے نہ تبدیل مذہب کے سبب۔ مغلوں نے چونکہ حکمران اور فاتح ہونے کی حیثیت میں اسلام کو قبول کیا تھا۔ لہٰذا حکومت و سرداری نے اس کو اسلام سے کماحقہ واقف ہونے کا موقعہ نہیں دیا۔ اور اس کی حالت کئی کئی پشتوں کے گزرنے تک بھی وہی رہی جو ابتداء ایک نو مسلم کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مغلوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی۔ کہ وہ دوسری قوموں کو دعوت اسلام دے سکیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مغلوں کے اکثر گروہ اور اکثر سردار کچھ عرصہ تک حالت کفر میں رہے۔ لیکن انھوں نے کبھی ان خاندانوں اور سرداروں کے ساتھ رہنے اور مل کر کام کرنے سے انکار نہیں کیا۔ جو مسلمان ہو چکی تھی۔ چونکہ مغلوں میں صلاحیت تبلیغ اسلام پیدا نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا غیر مسلم قبائل نے نہیں بلکہ قدیم مسلمانوں اور ان کی رعایاہی نے اسلام کی طرف توجہ کی۔ اس مذکورہ حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کے بعد ہندوستان کے بادشاہ اکبر کی بعض مذہبی بد اعمالیوں پر بھی تعجب باقی نہیں رہتا۔ مغلوں کے مقابلے میں تاتاری لوگ اسلام کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے اور ان کی مذہبی واقفیت کسی زمانے میں بھی ایسی