تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرابلس و مراکش و چین و ایران و خراسان اور بلوچستان وغیرہ ممالک کے باشندوں نے اپنی جہالت و ناواقفیت کے سبب قدم قدم پر مسلمانوں کو روکا ٹوکا اور مقابلہ کیا۔ اول اول ہر جگہ خون کے دریا بہانے کی نوبت آئی۔ اس کے بعد لوگوں نے اسلام کے سمجھنے اور سوچنے کا موقعہ پایا۔ لیکن چین و ترکستان میں جب اسلام پہنچا۔ تو وہاں کے باشندوں نے اسلام کے سمجھنے میں دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ دانائی اور بصیرت کا اظہار کیا۔ سیدنا عثمان غنی t کے زمانے میں ماوراء النہر کے اکثر باشندے مسلمان ہو چکے تھے۔ مشرقی ترکستان اور تبت تک اسلام لا چکا تھا۔ اسی کے قریب زمانے میں عرب لوگ چین کے اندر بطور تاجر اور بطور لشکری داخل ہو چکے تھے۔ ان مسلمان عربوں کی صحبت سے چینیوں میں اسلام کی اشاعت شروع ہو گئی تھی۔ چین و ترکستان میں اسلام نہایت تیز رفتاری کے ساتھ شائع ہو کر پہلی ہی صدی ہجری میں ان ملکوں کے تمام باشندوں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا چکا ہوتا۔ مگر علویوں کی سازشی تحریک اور بنو امیہ کی بربادی کے لیے کوششوں نے اسلام کی اشاعت کو نقصان پہنچایا۔ اور عالموں کی ذاتی و نفسانی اغراض ۱؎ مصنف نے یہاں مغلیہ دور حکومت کی بات کی ہے۔ اس دور میں سلاطین مغلیہ کے ہاں جہاں بعض اچھی روایات و امثال نظر آتی ہیں‘ وہیں بہت سے خلاف اسلام امور ریاستی سطح پر ہمیں نظر آتے ہیں‘ جیسے اکبر کے دین الٰہی کا کافرانہ نظام‘ جہانگیر کو دربار میں سجدئہ تعظیمی کا ہونا وغیرہ۔ حالانکہ سجدہ تو صرف اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ کو کیا جانا درست ہے۔ نے اشاعت اسلام کے کام کو روکا اور مسلمانوں کی آپس کی مخالفتوں اور خانہ جنگیوں نے غیر مسلموں کو غیر مسلم ہی رکھنا چاہا۔ ورنہ باشندگان چین و ترکستان میں اسلام کے قبول کرنے کی عام صلاحیت بہت زیادہ تھی۔ سلجوقیوں کے اولو العزم قبیلے نے بلا کسی لالچ یا خوف کے بخوشی اسلام کو قبول کیا۔ اور اسلام کا بہت بڑا خادم ثابت ہوا۔ ترکان غزنی نے جو ایک ڈاکہ زن اور غارتگر کی حیثیت سے ممالک اسلامیہ میں داخل ہوئے تھے۔ بخوشی اسلام کو قبول کیا۔ اور اس کے خادم ثابت ہوئے۔ آج بھی چین کے اندر آبادی کا بہت بڑا حصہ اسلام کا حلقہ بگوش اور خادم ہے تمام چینی مسلمان کسی جنگی مہم اور فوجی کارروائی کا نتیجہ نہیں ہیں۔ اور سب کے سب چین کے قدیم باشندوں کی نسلیں ہیں۔ چنگیز خان اور اس کے ساتھی ممالک اسلامیہ میں فاتحانہ داخل ہوئے۔ لیکن ان مغلوں نے اسلام کے سمجھنے اور اس کے تسلیم کرنے کی شروع ہی میں آمادگی ظاہر کی۔ اور چند ہی روز کے بعد چنگیز خان کی اولاد اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی خادم بن گئی۔ عجیب اتفاق ہے کہ مغرب کے انتہائی ملکوں تک یعنی مراکش و اندلس میں اسلام فاتحانہ تیغ و علم کے سایہ میں پہنچا تو مشرق کے انتہائی ممالک یعنی چین اور بحرالکاہل کے جزیروں میں وہ بلا تیغ و علم محض سوداگروں یا واعظوں اور مبلغوں کے ذریعہ پہنچا۔ مسلمانوں نے فاتح بن کر اپنے مفتوحوں کو اسلام کی دولت سے مالا مال کیا۔ تو دوسری طرف انھوں نے مفتوح ہو کر اپنے فاتحین کو بھی اسلام کا خادم بنا لیا۔ اگر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی ملک گیریاں اور خوں ریزیاں ظہور میں نہ آتیں تو اسلام کی صداقت و عظمت کا یہ پہلو کہ وہ فاتحین کو بھی اپنا مفتوح بنا سکتا ہے کسی قدر مشتبہ رہتا۔ پس مغلوں کی ترک و تاز کو اگر ایک طرف عالم اسلام کے لئے مصیبت کبریٰ کہا جا سکتا ہے۔ تو دوسری طرف اس کا نام رحمت عظمیٰ رکھا جا سکتا ہے۔ ہر بلا کہ ایں قوم راحق دادہ است