تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی قدردانی نہیں کی‘ لیکن اگر غور و تامل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس معاملہ میں سلیمان بن عبدالملک اس قدر خطا وار ہرگز نہیں ہے جس قدر ظاہر کیا گیا ہے‘ جس طرح ملک گیری ایک قابل قدر اور موجب عزت چیز ہے اس سے بڑھ کر ملک داری کا مرتبہ ہے‘ ضرورت ملک داری کا یہی تقاضا تھا جو سلیمان بن عبدالملک سے ظہور میں آیا‘ دنیا میں عام طور پر بہادر سپہ سالار اور ملک گیر فتح مندمالی معاملات میں بہت کمزور اور بے پروا ثابت ہوئے ہیں‘ اسی بے پروائی کا نتیجہ تھا کہ سیدنا فاروق اعظمt نے سیدنا خالد بن ولیدt کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا‘ فاروق اعظم کا یہ فعل ہرگز ہرگز محل اعتراض نہیں بن سکتا بلکہ عین صواب اور راستی پر مبنی تھا‘ بالکل یہی صورت موسیٰ بن نصیر کے معاملہ کی ہے‘ موسیٰ بن نصیر سولہ سترہ سال سے افریقہ کی گورنری پر مامور تھا موسیٰ بن نصیر کے ذمہ جو ملک افریقہ کے خراج کی بقایا تھی اور وہ بیت المال کا جس قدر مقروض تھا‘ اگر اس کو محض اس لئے چھوڑ دیا جاتا کہ موسیٰ کے زیر اہتمام ملک اندلس فتح ہوا ہے تو یہ بات دوسرے گورنروں کے لئے بدنما مثال ہوتی اور موسیٰ بن نصیر کی جرأت ایک غلطی یا غفلت یا خیانت میں اور بھی زیادہ ترقی کرجاتی۔ پھر اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ موسیٰ بن نصیر اور طارق کے معاملے میں سلیمان بن عبدالملک کے وزیروں‘ مشیروں‘ درباریوں میں سے کسی نے سلیمان بن عبدالملک کے متعلق سلیمان کی وفات کے بعد کوئی نکتہ چینی نہیں کی‘ مسلمان مورخین نے اس معاملہ میں کسی حیرت اور افسوس کا اظہار نہیں کیا جو دلیل اس بات کی ہے کہ موسیٰ بن نصیر کے ساتھ کوئی غیر معمولی برتائو نہیں ہوا‘ جو کچھ ہوا وہ عدل و انصاف کے خلاف نہ تھا‘ خلفائے بنو امیہ کے مصائب بیان کرنے والے اور ان کی ہر ایک بات کو نارواثابت کرنے میں مستعدی دکھانے والے سب سے زیادہ بنو عباس تھے‘ لیکن بنو عباس نے بھی اس خاص معاملے میں سلیمان کو بدنام نہیں کیا اور سلیمان کی اس ناقدر شناسی کا تذکرہ زبان پر نہیں لائے۔ ہمارے زمانہ میں جب کہ یورپی مورخین کی تصانیف بھی مسلمانوں کے مطالعہ میں آئیں اور بھی زیادہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے‘ یورپی مورخین فتح اندلس کے حالات لکھتے ہوئے ایک تو اس بات کو ثابت کرنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں کہ لرزیق کی سلطنت غیرمعمولی طور پر کمزور ہو گئی تھی‘ پھر بلادلیل یہ کہتے ہیں کہ لرزیق کی رعایا اس سے باغی ہو کر مسلمانوں سے مل گئی تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت کو دیکھ کر اندلس کی رعایا ضرور مسلم فاتحین کو قدرومحبت کی نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی لیکن رعایائے اندلس نے لڑائی اور مسلمانوں کی چڑھائی میں بجز اس کے کہ کونٹ جولین نے ذاتی طور پر انتقام لینے کے لئے مسلمانوں کو حملہ آور ہونے کی ترغیب دی اور ایک پادری نے اس معاملہ میں جولین کی تائید کی اور کوئی امداد مسلمانوں کو نہیں پہنچائی‘ نیز یہ کہ مسلمان اپنی ایمانی طاقت اور اپنے قلب کی قوت کے ہوتے ہوئے ایسی سازشوں اور باغیوں کی امداد کے محتاج بھی نہ تھے‘ عیسائی مورخ مسلمانوں کی اس غیر معمولی شجاعت و بہادری کے مرتبے کو کم کرنے کے لئے عجیب عجیب باتیں اور عجیب در عجیب افسانے تراشتے ہیں‘ لیکن آخر میں مجبور ہو کر طارق و موسیٰ اور ان کی فوج کی اولوالعزمی اور شرافت کا اقرار کر لینے میں مجبور ہو جاتے ہیں تو پھر طارق و موسیٰ اور سلیمان تینوں کی اخلاقی صفات پر حملہ آور ہو کر اپنے دل کا بخار نکال لیتے ہیں۔