تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مستنصر عبیدی نے حسن بن صباح کی خوب خاطر مدارات کی۔ حسن بن صباح نے مستنصر کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مستنصر نے حسن بن صباح کو داعی الکبیر کا عہدہ عطا کر کے فارس و عراق کی طرف روانہ کیا کہ وہاں جا کر لوگوں کو میری امامت و خلافت کی دعوت دو۔ مستنصر عبیدی کے تین بیٹے تھے۔ احمد۔ نزار اور ابو القاسم۔ رخصت ہوتے وقت حسن بن صباح نے مستنصر سے دریافت کیا۔ کہ آپ کے بعد میرا امام کون ہو گا۔ مستنصر نے جواب دیا کہ میرا بیٹا نزار تمہارا امام ہو گا۔ چنانچہ مستنصر نے نزار ہی کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا۔ مستنصر کی وفات کے بعد وزیر السلطنت اور مستنصر کی بہن نے سازش کر کے ابوالقاسم کو تخت سلطنت پر بٹھایا۔ اور وہی مصر کا فرماں روا ہوا۔ مگر حسن بن صباح نے اس کی امامت کو تسلیم نہ کیا۔ اور نزار ہی کو مستحق امامت مانتا رہا۔ اسی لیے حسن بن صباح کی جماعت کو نزاریہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ حسن بن صباح مصر سے رخصت ہو کر ایشیائے کو چک اور موصل ہوتا ہوا خراسان پہنچا۔ یہاں علاقہ طالقان و قہستان کی حکومت پر جو گورنر مامور تھا۔ اس نے اپنی طرف سے قلعہ الموت کی حکومت ایک علوی کو سپرد کر رکھی تھی۔ حسن بن صباح اس علوی کے پاس پہنچا اس نے حسن بن صباح کی بے حد تعظیم و تکریم کی اور اپنے پاس ٹھہرایا۔ حسن بن صباح ایک عزیز و مکرم مہمان کی حیثیت اور ایک عابد و زاہد باخدا انسان کی حالت میں عرصہ دارز تک قلعہ الموت (الموت میں الف اور لام دونوں مفتوح ہیں) میں مقیم رہ کر در پردہ اس قلعہ پر قبضہ کرنے کی تدبیروں میں مصروف رہا۔ اور جب اس کی تدبیریں مکمل ہو گئیں تو علوی کو قلعہ سے نکال کر خود قلعہ پر قابض و متصرف ہو گیا۔ یہ زمانہ ملک شاہ سلجوقی کی حکومت کا تھا۔ ملک شاہ کے وزیر نظام الملک طوسی نے اس خبر کو سن کر ایک فوج حسن بن صباح کی سرکوبی اور قلعہ الموت کے محاصرہ پر روانہ کی۔ حسن بن صباح نے اپنے گروہ کے بہت سے آدمیوں کو فراہم کر کے کافی مضبوطی کر لی تھی۔ لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ ابھی یہ سلسلۂ جنگ جاری ہی تھا کہ حسن بن صباح نے باطنیہ کے ایک گروہ کو نظام الملک کے قتل پر مامور کیا۔ چنانچہ اس گروہ نے موقعہ پا کر نظام الملک کو قتل کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فوج جو نظام الملک نے بھیجی تھی واپس چلی گئی اس کامیابی کے بعد حسن بن صباح اور اس کے دوستوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اور بلا تامل ارد گرد کے علاقے پر قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ انہی ایّام میں ایک شخص منور نامی جو سامانی خاندان سے تھا۔ قہستان کا گورنر یا ناظم تھا۔ اس کی ایک سلجوقی وائسرائے سے مخالفت ہو گئی۔ دونوں کی نزاع نے یہاں تک طول کھینچا کہ منور نے حسن بن صباح سے امداد طلب کی۔ حسن بن صباح نے بلا تامل اپنی فوج بھیج کر قہستان پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح رفتہ رفتہ حسن بن صباح کی طاقت و شوکت نے ترقی اختیار کی۔ ادھر ملک شاہ کی وفات کے بعد سلجوقی سرداروں میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بجائے اس کے کہ وہ حسن بن صباح کا استیصال کرتے اپنی خانہ جنگیوں میں اس سے مدد طلب کرنے لگے۔ اس طرح حسن بن صباح کی حکومت و سلطنت کا سکہ جم گیا سلطان برکیارق نے اپنے بھائی محمد کے مقابلہ میں ان باطنیوں سے امداد طلب کر کے اور بھی زیادہ ان کی عظمت کو بڑھا دیا۔ مگر چند ہی روز کے بعد سلطان برکیارق کو ان باطنیوں کے قتل عام کا حکم دینا پڑا۔ ادھر احمد بن عطاش نے قلعہ شاہ در پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ آخر سلجوقیوں نے احمد بن عطاش اور اس کے ساتھیوں کو ہر طرف سے محاصرہ کر کے